Maktaba Wahhabi

563 - 829
ہے تو ان کے لئے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ نماز داخل کرنا جائز نہ تھا۔ [1] لہٰذا مقتدیوں کو چاہئے کہ طریقہ نبوی کے مطابق امام سے نماز کی تعلیم حاصل کریں اور امام صاحب پر اپنی مرضی ٹھونسنے سے اجتناب کریں ۔ ساری خیرو برکت اسی میں ہے۔ فعل یا ترک ہردو کا نام سنت ہے جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :ولکننا نتبع السنة فعلا أو ترکا [2] سماحۃ الشیخ ابن باز رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ احکام جو دین کی طرف منسوب ہوں ، ضروری ہے کہ وہ دین کے نصوص سے ثابت ہوں اور ہر وہ شے جو زمانہ تشریعی اور شرعی نصوص میں ثابت نہیں وہ اس کے قائل کو واپس لوٹا دی جائے گی۔ امیرالمؤمنین حضرت عمررضی اللہ عنہ نے حجراسود کو مخاطب کرکے جو فرمایا تھا، اس کا مقتضی بھی یہی ہے ۔ [3] جلسہ استراحت کے ترک پر چونکہ شرعی کوئی نص موجود نہیں ، لہٰذا اس کا اہتمام ہونا چاہئے۔ تمام بھلائیاں سنت کی پیروی میں ہیں اور اسکو نمازی کی کمزوری پر محمول کرنا درست نہیں ۔ جلسہ استراحت یا درمیانی قعدہ سے اُٹھنے کا کیا مسنون طریقہ : سوال: جلسہ استراحت یا درمیانی قعدہ سے اُٹھنے کا کیا مسنون طریقہ ہے؟ ہاتھ پر ٹیک لگانا چاہیے یا نہیں؟ صلوٰۃ المصطفیٰ میں ٹیک لگانے کو مکروہ قرار دیا ہے۔ کیا یہ درست ہے؟ جواب: ’’صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب دوسرے سجدہ سے اپنا سَر اٹھاتے تو بیٹھ جاتے اور زمین پر ٹیک لگا کر پھر کھڑے ہوتے۔[4] یاد رہے کہ اٹھنے کے وقت دونوں ہاتھ زمین پر ٹیکتے ہوئے مٹھیاں بند رکھنی چاہئیں۔ جس طرح کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل واضح ہے۔(غریب الحدیث حربی) اور جن روایات میں ٹیک لگانے سے روکاگیا ہے، وہ ضعیف ہیں۔ ملاحظہ ہو!’’ نصب الرایہ‘‘ زیلعی اور ’’تحقیق الترمذی‘‘ میں علامہ احمد شاکر اور ’’صلوٰۃ المصطفیٰ‘‘کا اعتماد ضعیف روایت پر ہے۔ جو ناقابلِ التفات ہے۔
Flag Counter