Maktaba Wahhabi

535 - 829
میں سجودِ سہو مشروع ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے: ((بَابُ السَّھوِ فِی الفَرضِ، وَالتَّطَوُّعِ، وَ سَجَدَ ابنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا سَجدَتَینِ بَعدَ وِترِہٖ )) یعنی ’’فرضی اور نفلی نماز میں سہو کی صورت میں کیا ہونا چاہیے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے وِتر کے بعد دو سجدے کیے تھے۔ ‘‘ یہ ’’أثر‘‘ لانے سے مصنف کا مقصود نوافل میں بھی ’’سجودِ سہو‘‘ کا اثبات ہے۔ کیونکہ راجح مسلک کے مطابق وِتر واجب نہیں۔ اسی طرح اہلِ علم نے اس مسئلہ پر بھی گفتگو کی ہے، کہ نمازِ عید کا کیا حکم ہے ؟ ایک گروہ کے نزدیک واجب ہے، جب کہ دوسرا گروہ اس کی محض سنیت یا سنت مؤکدہ ہونے کا قائل ہے، لیکن دلائل کی رُو سے بظاہر اوّل الذکر مسلک راجح ہے۔ قرآن میں ہے:﴿ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانحَر﴾(الکوثر:۲) وجہ استدلال یہ ہے، کہ صیغۂ امر وجوب کا متقاضی ہے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ عید پر مداومت کی ہے۔ کبھی ترک نہیں کی۔ مزید آنکہ یہ دین کا ظاہری عظیم شِعار ہے۔ واضح ہو، کہ اصل اختلاف یہ نہیں، کہ مجمع کی کثرت کی وجہ سے آواز لوگوں کو سنائی دیتی ہے یا کہ نہیں۔ اگر یہی علت فرض کر لی جائے، پھر تو حج کے دوران یا آگے پیچھے، بیت اﷲ میں فرض نمازوں میں بھی سجود سہو نہیں ہونے چاہئیں۔ حالانکہ کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں۔ اصل صورتِ حال یہ ہے، کہ بعض سلف کے نزدیک نفلی نماز میں سجدۂ سہو نہیں ۔ ممکن ہے اس دینی کتاب کے مؤلف نے اسے نفلی نماز سمجھ کر کہا ہو، کہ اس میں سجدۂ سہو نہیں، جب کہ اصل معاملہ اس کے برعکس ہے۔ لہٰذا ’’صلوٰۃِ عید‘‘ میں سہو کی صورت میں بلا تردّد سجدۂ سہو ہونا چاہیے۔ بناء بریں مُشارٌ إلیہ موصوف خطیب صاحب کا موقف درست ہے۔ امام مسجد کابھولے سے نمازِ تراویح میں تین رکعات ایک سلام کے ساتھ پڑھنا: سوال: امام مسجد نے بھولے سے نمازِ تراویح میں تین رکعات ایک سلام کے ساتھ یعنی ایک رکعت زائد پڑھ لی۔ پھر آخر میں سجدۂ سہو کیا۔ اس کے بعد اگلی دو رکعت کی بجائے صرف ایک رکعت تراویح پڑھی اور اس میں بھی سجدۂ سہو کیا، بھولے سے زائد پڑھی ہوئی رکعت کو بھی شمار کیا، اور اسی رکعت سے متعلق سجدۂ سہو دوبارہ کیا۔ کیا یہ دونوں امور یعنی ان رکعات کو شمار کرنا اور دوبارہ سجدۂ سہو کرنا درست تھا؟ جواب: بایں صورت مصلِّی(نمازی) کو چاہیے، کہ تین رکعات کے ساتھ ہی بلا سلام پھیرے چوتھی رکعت کا
Flag Counter