Maktaba Wahhabi

283 - 829
آنے والے کے لیے دو رکعت پڑھنے کی تاکید ہے، لیکن یہ ’’تحیۃ المسجد‘‘ ہیں۔ نہ کہ ’’سنتیں‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((أَقوٰی مَا یَتَمَسَّکُ بِہٖ فِی مَشرُوعِیَّۃِ رَکعَتَینِ قَبلَ الجُمعَۃِ عُمُومُ مَا صَحَّحَہُ ابنُ حِبَّانَ مِن حَدِیثِ عَبدِ اللّٰہِ بنِ الزُّبَیرِ مَرفُوعًا۔ مَا مِن صَلٰوۃٍ مَّفرُوضَۃٍ إِلَّا وَ بَینَ یَدَیھَا رَکعَتَانِ، مِثلُہٗ حَدِیثُ عَبدِ اللّٰہِ بنِ مُغَفَّلٍ: بَینَ کُلِّ أَذَانَینِ صَلٰوۃ )) [1] ’’ سب سے مضبوط ترین دلیل، جس سے جمعہ سے پہلے دو رکعتیں پڑھنے پر تمسک(یعنی دلیل لی گئی ہے) کیا گیا ہے، وہ صحیح ابن حبان میں عبد اﷲ بن زبیر کی مرفوع روایت کا عموم ہے، کہ ہر فرضی نماز سے پہلے دو رکعتیں ہیں اور اسی طرح عبد اﷲ بن مغفل کی حدیث میں ہے، کہ ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے۔‘‘ یعنی اذان اور تکبیر۔ لیکن اس دوسری حدیث کا انطباق (لاگو کرنا) عہدِ رسالت میں مشکل نظر آتا ہے۔ (( فَتَأَمَّل ھٰذَا مَا عِندِی وَاللّٰہُ أَعلَمُ بِالصَّوَابِ وَ عِلمُہٗ أَتَمُّ )) ظہر کی نماز کا اوّل وقت : سوال: ظہر کی نماز کا وقت آج کل عموماً ایک بجے ہے جب کہ زوال کا وقت گیارہ بج کر پچاس منٹ پر ہے کیا ایک بجے کا وقت نماز کا اول یا درمیانہ یا آخری وقت شمار کیا جائے گا۔ اوّل وقت کب شروع ہوتا ہے۔ جواب: ظہر کا وقت سورج کے ڈھلنے سے لے کر ایک مثل ( ہر شے کا سایہ اس کے برابر ہوجانے ) تک ہے۔ دوپہر کا سایہ مثل میں داخل نہیں۔ اس حساب سے ظہر کے اوّل کا آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں۔ مشارٌالیہ (اوپربیان کردہ) وقت بہر صورت درمیانہ ہے۔ مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو!( عون المعبود :جلد اوّل) اور نقشہ اوقاتِ نماز مرتب شدہ قاری عزیر صاحب۔ سخت گرمی میں ظہر کی نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھنا: سوال: سخت گرمی میں ظہر کی نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھنے کا حکم ہے۔ ٹھنڈے وقت سے کیا مراد ہے؟ مثلاً اگر نماز ظہر کا وقت ۱۲ بج کر ۱۰ منٹ پر شروع ہو رہا ہے اور ساڑھے بارہ بجے جماعت کا وقت ہے (عام دنوں کے مطابق) اگر اسے ٹھنڈے وقت پڑھیں تو کیا وقت ہونا چاہیے؟ وضاحت سے جواب دیں۔
Flag Counter