Maktaba Wahhabi

555 - 829
الرکوع اور دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا تقریباً برابر ہوتا تھا۔صحیح تعداد تسبیح مذکورہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم و صحابہ رضی اللہ عنہم سے کیا ثابت ہے؟ جمہور تین مرتبہ کے قائل کیوں ہیں؟ جواب: مختلف روایات میں تطبیق اور توفیق کی صورت یوں ہے، کہ ان کو مختلف حالات پر محمول کیا جائے۔ بعض دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کلمہ کو دو یا تین دفعہ پڑھتے اور بسا اوقات تکرار سے مسلسل پڑھتے رہتے۔ جس طرح کہ حضرت براء رضی اللہ عنہ کی روایت سے مفہوم ہے۔ دراصل اس کا دارومدار نماز کی طوالت اور تخفیف پر ہے۔ عام حالات میں تسبیحات کا اندازہ تین سے دس تک ہے۔ جس طرح کہ بالترتیب ابن مسعود،اور انس رضی اللہ عنہما کی روایات میں مصرح (واضح)ہے۔ لیکن امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (( لَا دَلِیلَ عَلٰی تَقِییدِ الکَمَالِ بِعَدَدٍ مَعلُومٍ، بَل یَنبَغِی الاِستِکثَارُ مِنَ التَّسبِیحِ عَلٰی مِقدَارِ تَطوِیلِ الصَّلٰوۃِ مِن غَیرِ تَقِییدٍ بِعَدَدٍ )) [1] اور جو لوگ تین دفعہ کے قائل ہیں۔ وہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کے ظاہر کی بناء پر ہیں۔ دو سجدوں کے درمیان دعا کتنی مرتبہ؟ سوال: قیام اور رکوع و سجود کی تسبیح کے لگ بھگ جلسہ بین السجدتین میں دعا پڑھنی چاہیے۔ کیا دو دفعہ((ربِّ اغفِرلِی))کہنے سے ایک مرتبہ ((سُبحَانَ رَبِّیَ الاَعلٰی))کے بقدر الفاظ نہیں ہو جاتے؟ یعنی اگر چھ مرتبہ ((رَبِّ اغفِرلِی))کہا جائے تو اس کے الفاظ ((سُبحَانَ رَبِّی الاَعلٰی)) تین مرتبہ کہنے کے برابر نہیں ہوجاتے؟ جواب: رکوع ، سجود اور سجدوں کے درمیان الفاظ اذکار کا برابر ہونا ضروری نہیں۔ صرف مأثور کا اہتمام ہونا چاہیے۔ چاہے الفاظ کی کمی و بیشی ہو۔ دو سجدوں کے درمیان اَللّٰھُمَّ اغفِرلِی وَارحَمنِی …الخ۔ دعا والی حدیث کا حکم: سوال: ایک عالم صاحب کراچی میں پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ دو سجدوں کے درمیان اَللّٰھُمَّ اغفِرلِی وَارحَمنِی …الخ۔ دعا والی حدیث ضعیف ہے اس کو ترک کر دینا چاہیے۔ اصل حقیقت کیا ہے؟ براہ کرم تفصیل سے وضاحت فرما دیں۔ جواب: یہ روایت ترمذی، ابوداؤد اور ابن ماجہ وغیرہ میں ہے۔ اس کی سند میں ایک راوی حبیب بن ابی ثابت ہے جو مدلس ہے۔ جملہ کتب میں کسی محدث نے اس کی تحدیث یا سماع کی صراحت نہیں کی۔ اس لیے
Flag Counter