Maktaba Wahhabi

284 - 829
جواب: ظہر کا وقت آفتاب کے ڈھلنے سے لے کر ایک مثل (ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہو جانے) تک ہے۔ دوپہر کا سایہ مثل میں داخل نہیں۔ ’’صحیحین‘‘ میں حدیث ہے: ((اِذَا اشتَدَّ الحَرُّ فَأَبِردُوا بِالصَّلَاۃِ )) [1] ’’جب سخت گرمی ہو تو نماز ظہر ٹھنڈے وقت میں پڑھو۔‘‘ ٹھنڈے وقت سے مراد یہ ہے، کہ شدت کی گرمی میں سورج ڈھلتے ہی فوراً نہ پڑھو۔ تھوڑی دیر کر لو۔ اس کا مفہوم قطعاً یہ نہیں کہ چار بجا دو۔ سنن ابی داؤد کی روایت میں موسم گرما اور سرما کے وقت کی یوں تصریح ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی نماز کا اندازہ موسمِ گرما میں تین قدم سے لے کر پانچ قدم تک تھا، اور جاڑوں کے موسم میں پانچ قدم سے لے کر سات قدم تک تھا۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے حدیث ہذا کو صحیح کہا ہے۔ قبل از وقت اذان: سوال: ’’دائمی اوقات الصلوٰۃ‘‘ کے مطابق ۱۳؍۶ کو غروب شفق ۸ بج کر ۴۶ منٹ پر تھا۔ اس لیے عشاء کی اذان مذکورہ وقت پر یا اس کے بعد ممکن تھی، لیکن مسجد کمیٹی کے ذمہ دار حضرات میں سے ایک صاحب ۴۵؍۸ پر اذان اور ۹ بجے نماز ادا کرنے پر بضد ہیں کیا قبل از وقت اذان دینا صحیح ہے ؟ اگر نہیں تو کیا اذان واجب الاعادہ ہے؟ اگر ۴۵۔۸ پر اذان دینا صحیح نہیں تو اس صورت میں نماز کی حیثیت کیا بنی؟ اگر مذکورہ وقت پر اذان دینے سے نماز متاثر ہوتی ہے تو اس کوتاہی پر ذمہ دار آدمی اور امام صاحب پر شرعاً کیا بوجھ آتا ہے۔ جواب: جس زمانہ میں نمازوں کے اوقات مقرر ہوئے تھے اس وقت انسانوں کے پاس اتنے ذرائع تسہیلِ معرفتِ اوقات (آسانی سے اوقات معلوم کرنے کے وسائل) موجود نہیں تھے۔ ظاہر ہے کہ اس وقت ان کا تعین ظاہری معلومات پر مبنی تھا، جس میں کمی و بیشی کا امکان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسجد نبوی اورمسجد قباء کے اوقاتِ نماز میں بھی تفاوت تھا(فرق) جو کسی کے ہاں قابلِ نکیر نہ تھا۔ ان حالات کے پیشِ نظر اور ((الدِّینُ یُسرٌ)) کا تقاضا ہے، کہ مذکورہ وقت پر اذان اور پڑھی ہوئی نماز دونوں درست ہوں۔ لیکن جان بوجھ کر عمل ہذا پر اصرار نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ موجودہ رَوَش کو بدل کر ٹائم پیچھے
Flag Counter