Maktaba Wahhabi

687 - 829
جواب: صحیح بخاری (کتاب التہجد) میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں قبل از ظہر دو رکعتوں کا ذکر ہے۔ جب کہ اس کے متصل بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں چار کی صراحت ہے۔ الفاظ یوں ہیں: (( کَانَ لَا یَدَعُ اَربَعًا قَبلَ الظُّہرِ)) [1] اس حدیث میں بظاہر ’’وصل‘‘ کا جواز ہے۔ اس طرح عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے پہلے یعنی فرضوں سے پہلے زوال شمس کے بعد چار رکعت پڑھتے تھے۔[2] صاحب مرعاۃ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ (ج:۲، ص:۱۵۰) اس حدیث میں بھی چار رکعت اکٹھی پڑھنے کا جواز ہے۔ یہاں فصل کا ذکر نہ ہونا وصل کی دلیل ہے۔ علامہ ملا علی قاری حنفی نے اس سے مراد ظہر کی چار سنتیں ہی لی ہیں۔ اگرچہ بعض نے ان کا نام ’’سنۃ الزوال‘‘ رکھا ہے۔ نیز حضرت ابوایوب الانصاری کی روایت میں (( أَربَعٌ قَبلَ الظُّھرِ ، لَیسَ فِیھِنَّ تَسلِیمٌ)) (ابوداود وابن ماجہ) [3] کے مصرح الفاظ بھی ہیں۔ لیکن روایت ضعیف ہے۔ (واللہ اعلم) ’’تحیۃ المسجد‘‘ کا حکم عام ہے، فجر کی سنتیں جماعت کے فوراً بعد پڑھی جاسکتی ہیں۔ ظہر اور عصر سے قبل چار رکعت سنت ایک سلام سے پڑھنا : سوال: ظہر اور عصر سے قبل چار رکعت سنت ایک سلام سے پڑھنا کیسا ہے جب کہ حدیث میں ہے کہ ((صَلٰوۃُ اللَّیلِ وَالنَّھَارِ مَثنٰی مَثنٰی )) [4] دوسری حدیث ہے کہ (( کَانَ النَّبِیُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یُصَلِّی قَبلَ العَصرِ اَربَعَ رَکعَاتٍ یَفصِلُ بَینَھُنَّ بِالتَّسلِیمِ )) [5] کیا کسی حدیث میں چار رکعت اکٹھی پڑھنے کا بھی ذکر ہے؟ جواب: ظہر اور عصر سے پہلے چار رکعات کو اکٹھا پڑھنا جائز ہے۔ چنانچہ ’’سنن ابی داؤد‘‘ ، ’’نسائی‘‘ اور
Flag Counter