Maktaba Wahhabi

108 - 829
نہیں دیکھی تو پانی گردا گرد چھڑک دیتا۔میں تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے مَنی چھیل ڈالتی۔ یعنی کھرچ ڈالتی۔ پھر آپ اس کپڑے کو پہن کر نماز پڑھتے۔[1] اس حدیث کے فوائد میں علامہ وحید الزمان نے فرمایا کہ علامہ نووی رحمہ اللہ نے کہا۔ علماء نے اختلاف کیا ہے ۔ آدمی کی مَنی میں امام مالک اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب ہے کہ وہ نجس ہے اور بہت سے علماء اس طرف گئے ہیں کہ مَنی پاک ہے اور یہی مروی ہے حضرت علی، حضرت عمر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم سے اور یہی مذہب ہے امام احمد رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ اور اہلِ حدیث کا۔ آپ سے گزارش ہے کہ مَنی پاک ہے یا ناپاک؟ اس بارے میں قرآن و حدیث کی روشنی میں مفصل جواب دیں۔ جواب:دلائل کی رُو سے قوی مسلک یہ ہے کہ مَنی پاک ہے جس طرح کہ صحیح احادیث میں مصرح(واضح) ہے۔ حنفیہ کے مسلمہ بزرگ طحاوی رحمہ اللہ ، ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں۔ یعنی ’’منی کی بابت رسول اﷲ صلي الله عليه وسلم سے سوال ہوا کہ کپڑے کو لگ جائے تو کیاکرے؟ فرمایا: مَنی بلغم یعنی سینڈھ اور تھوک کے بمنزلہ(کی طرح) ہے۔ توتجھے صرف اس کالیر(کپڑا) یا گھاس اذخر سے پو نچھنا کافی ہے۔ ملاحظہ ہو’’المنتقیٰ، مَعَ نَیل الاَوطَار‘‘ ظاہر ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی تخلیق کا عنصر ناپاک نہیں ہو سکتا ہے اس سے بھی معلوم ہوا کہ مَنی پاک ہے۔ مذی لگے کپڑے تبدیل کیے جائیں یا چھینٹے مار لینا کافی ہے؟ سوال: مذی نکلنے پر وضوفرض ہو جاتا ہے۔ جن کپڑوں پر یہ قطرے لگے ہوں انہیں تبدیل کیا جائے یا بغیر دھوئے پانی کے صرف چھینٹے پر اکتفا کیا جائے؟ جواب: اس مسئلے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ امام شافعی اور امام اسحاق بن راہویہ رحمہما اللہ کپڑے دھونے کے قائل ہیں۔جب کہ بعض علماء کہتے ہیں کہ صرف چھینٹے لگانا ہی کافی ہے۔ چنانچہ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ پانی کے چھینٹے لگانا کافی ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الأوطار میں اسی بات کو ترجیح دی ہے کہ صرف چھینٹے کافی ہیں، کپڑا دھونے کی ضرورت نہیں۔[2]
Flag Counter