Maktaba Wahhabi

805 - 829
شرط یہ ہے، کہ جیسا کہ ابن سیرین رحمہ اللہ نے کہا ہے: کہ عادت نہ بنائی جائے۔[1] ابن عباس رضی اللہ عنہما کاقول بھی اس بات کا مؤید ہے، کہ بارش وغیرہ کے سبب نمازوں کو جمع کیا جا سکتا ہے، کیونکہ علت عدمِ مشقت بیان ہوئی ہے۔ بوجہ بارش دو نمازیں جمع کرنا: سوال: ہمارے ہاں مسلک اہلِ حدیث کی دوسری مسجد میں بارش کے دن مغرب کے وقت جب بارش ہوچکی ہوتی ہے یا ہو رہی ہوتی ہے تو مغرب اور عشاء کی دونوں نمازیں مغرب کی نماز کے وقت میں اکٹھی پڑھ لی جاتی ہیں کیا ایسا کرنا شریعت میں جائز ہے؟ جواب: بارش کی صورت میں جمع کرنے کا جواز ہے۔ افضل یہ ہے کہ نمازیں جمع نہ کی جائیں۔ سوال: بارش اور آندھی کی صورت میں شام کی نماز کے ساتھ عشاء کو ملا کر پڑھا جا سکتا ہے ؟ کیونکہ آج کل راستے میں بہت سا پانی اور کیچڑ جمع ہونے کی صورت میں مسجد میں آنا مشکل ہو جاتا ہے؟ جواب: بارش وغیرہ کے موقع پر مؤذن کو چاہیے، کہ اذان میں ((صَلُّوا فِی بُیُوتِکُم)) [2]کہہ کر لوگوں کو گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت دے۔ ایسے موقع پر دو نمازوں کو جمع کرنے کا بھی جواز ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوف اور بارش کے بغیر ظہر اور عصر کی نماز اور مغرب اور عشاء کی نماز مدینہ میں جمع کرکے پڑھی۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ صاحب’’منتقی الاخبار‘‘ فرماتے ہیں: کہ یہ حدیث اپنے مفہوم سے بارش، خوف اور بیماری کی وجہ سے نمازوں کے جمع کرنے پردلالت کرتی ہے: باب جمع المقیم للمطر او غیرہ۔ اور امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((قَالَ بَعضُ اَھلِ العِلمِ : یُجمَعُ بَینَ الصَّلٰوتَینِ فِی المَطَرِ، وَبِہٖ قَالَ الشَّافِعِیُّ، وَ اَحمَدُ)) یعنی ’’ بعض اہلِ علم بارش میں دو نمازیں جمع کرنے کے قائل ہیں۔ امام شافعی اور امام احمد نے اسی مسلک کو اختیار کیا ہے۔‘‘ بواسیر والا شخص جمع و تقدیم کے ساتھ نمازیں ادا کر سکتا ہے؟ سوال: ایک شخص کو ایک موذی بیماری بواسیر ہے۔ جس کی وجہ سے کبھی وضوکے بعد اسی نماز میں وضواور
Flag Counter