Maktaba Wahhabi

95 - 829
جو ایامِ ماہواری آتے تھے ان میں اگر اس کے خون کا ظہور ہوا، یعنی خون آجائے تو وہ حیض ہی میں شمار ہوگا، اور یہ بند ہوجانا بوجہ کسی عارضہ کے ہے۔ زینب خون جاری رہنے کے وقت نماز نہ پڑھے، وہ اس کا حیض ہے جب کہ یہ خون اس کے ایامِ ماہواری میں آیا ہے۔ ہاں اگر خون ایام ماہواری کے علاوہ نظر آئے تو وہ استحاضہ، بیماری ہے۔ اس میں وہ نماز پڑھے، قضاء وغیرہ کوئی نہیں۔ (( وَ جَائَ فِی الحَدِیث…: فَاِذَا اَقبَلَتِ الحَیضَۃُ فَدَعِی الصَّلٰوۃَ وَ اِذَا اَدبَرَت فَاغتَسِلِی وَصَلِّی)) [1] یعنی ’’فرمایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جب عورت کو حیض آئے (اس کے ماہواری کے ایام میں) تو وہ نماز چھوڑ دے اور جب وہ ایام گزر جائیں تو وہ غسل کرے اور نماز پڑھے۔ عورتیں اپنے خونِ حیض کو خوب پہچانتی ہیں اور خونِ حیض وخونِ استحاضہ میں باعتبارِ رنگ وبو وغیرہ بھی فرق ہے۔‘‘ حیض کے خاتمے پر، غسل سے قبل مباشرت کرنا؟ سوال: سورۃ البقرہ کی آیت ۲۲۲ یہ ہے :﴿وَلَا تَقْرَبُوہُنَّ حَتَّیٰ یَطْہُرْنَ﴾ یعنی حیض سے پاک ہوجانے کے بعد وطی کی اجازت دی گئی ہے۔ اس آیت کی رو سے کیا غسل کے بغیر مباشرت حرام ہے، جیسا کہ اکثر اسلاف اسی کے قائل ہیں یا پاک ہونے کا مطلب محض خونِ حیض کا بند ہوجانا ہے، اگرچہ عورت نے غسل نہ بھی کیا ہو؟ (حافظ عبداللہ سلفی، ملتان روڈ، لاہور) جواب: جمہور اہل علم کا مسلک یہی ہے کہ انقطاعِ حیض کے بعد غسل سے فراغت کے بعد ہی بیوی سے وطی حلال ہوتی ہے۔ تاہم بعض سلف نے بایں صورت مخصوص مقام کو دھونے یا وضو وغیرہ کی صورت میں بھی وطی حلال قرار دی ہے۔ فقیہ ابن قدامہ نے (المغنی:۱۴۲۰)میں قرآنی الفاظ (فَإِذَا تَطَہَّرْنَ) کی تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یوں نقل کی ہے:یعنی إذا اغتسلن ’’جب عورت غسل کرلے۔‘‘ اگرچہ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ نے المُحلّٰی۱؍۲۵۶،۳۵۷) میں دوسرا مسلک اختیار کیا ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی آداب الزفاف (صفحہ ۴۸) میں اسی مسلک کو دلائل سے قریب ترقرار دیا ہے لیکن میرے نزدیک جمہور کا مسلک راجح ہے۔ احادیث فاطمہ بنت ِابی حبیش وغیرہ جو اس بارے میں صریح ہیں ،سے بھی اسی امر کی تائید ہوتی ہے۔ دوسرا مذہب اضطراری حالت پر محمول ہوگا۔ واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا یہ قول کہ دس روز سے پہلے اگر عورت حیض سے پاک ہوجائے تو غسل کے بعد
Flag Counter