Maktaba Wahhabi

262 - 829
پڑھنا ایک نیا رواج ہے۔‘‘ امام ابن الحاج محمد مالکی کی تحقیق: ((أَنَّ السُّنَّۃَ فِی اَذَانِ الجُمُعَۃِ إِذَا صَعِدَ الاِمَامُ عَلَی المِنبَرِ، أَن یَکُونَ المُؤَذِّنُ عَلَی المَنَارِ۔ کَذَالِکَ کَانَ عَلٰی عَھدِ النَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وَ أَبِی بَکرٍ، وَ عُمَرُ، وَ صَدرًا مِّن خِلَافَۃِ عُثمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنھُم… قَالَ عُلَمَاؤُنَا۔ وَ سُنَّۃُ النَّبِیُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أَولٰی أَن تُتَّبَع۔ فَقَد بَانَ اَنَّ فِعلَ ذَلِکَ فِی المَسجِدِ بَینَ یَدِی الخَطِیبِ بِدعَۃٌ )) [1] ’’جمعہ کی اذان کے متعلق سنت طریقہ یہ ہے کہ جب امام خطبہ پڑھنے کے لیے منبر پر چڑھے تو اس وقت مؤذن منار پر کھڑا ہو۔ نبی صلی الله علیہ وسلم ، حضرت ابوبکر و عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کی خلافت کے شروع زمانہ تک اسی دستور پر عمل رہا۔ پھر خلیفہ ہشام بن عبد الملک نے اذانِ عثمانی کو منار پر اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد سے لے کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وفات تک پڑھی جانے والی مسنون و متوارث اذان کو اپنے سامنے کہلوانا شروع کردیا۔ اس واسطے ہمارے مالکی علماء نے کہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہی پیروی کے زیادہ لائق ہے۔ اس سے واضح ہے کہ مسجد کے اندر خطیب کے سامنے اذان دینا بدعت ہے۔‘‘ امام شمس الحق ڈیانوی رحمہ اللہ : حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کی حدیث کے جملہ’’کَانَ یُؤَذِّنُ بَینَ یَدَی رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ‘‘ کی شرح میں رقم فرماتے ہیں:’’ بَینَ یَدَی‘‘ کا معنی سامنے ہے، جو قریب اور بعید دونوں کو شامل ہے۔ پھر معنی یہ لکھا ہے: ((وَالمَعنٰی: اَنَّ بِلَالًا یُؤَذِّنُ قُدَّامَ النَّبِّی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، وَ أَمَامَہٗ، اِذَا جَلَسَ النَّبِیُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یَومَ الجُمُعَۃِ۔ لٰکِن لَا یُؤَذِّنَ قُدَّامَہٗ عِندَ المِنبَرِ مُتَّصِلًا بِہٖ۔ کَمَا ھُوَ المُتَعَارِفُ الآنَ فِی أَکثَرِ بِلَادَ الھِندِ إِلَّا مَا عَصَمَہُ اللّٰہُ۔ لِأَنَّ ھٰذَا لَیسَ مَوضِعُ الأَذَانِ ۔ وَ تَفُوتُ مِنہُ فَائِدَۃُ الأَذَانِ)) [2] ’’اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ ارشاد فرمانے کے لیے منبر پر
Flag Counter