Maktaba Wahhabi

770 - 829
الاسماء واللغات میں، ابو سعید سمعانی، حافظ ابن حجر نے فی الخصال المکفّرۃ اور اَمالی الاذکار میں، ابومنصور دیلمی، بیہقی، دارقطنی اور دیگر اہل علم رحمہما اللہ نے بھی اس پر صحت یا تحسین کا حکم لگایا ہے۔ علامہ ابو الحسن عبید اللہ مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’میرے نزدیک حق اور درست بات یہ ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ضعیف نہیں چہ جائیکہ اس پر من گھڑت یا جھوٹی ہونے کا حکم لگایا جائے، بلکہ بلاشبہ میرے نزدیک یہ حسن درجہ سے کم نہیں بلکہ یہ بھی بعید نہیں کہ شواہد کی بنا پر اس حدیث کو صحیح لغیرہ قرار دیا جائے۔‘‘ پھر آپ نے معترضین کے اعتراضات کا جائزہ پیش کرکے اس کو قابلِ حجت قرر دیا ہے۔(مرعاۃ المفاتیح:۲؍۲۵۳) حدیث ہذا پر تفصیلی گفتگو کے لیے ملاحظہ ہو کتاب اللآلی المصنوعۃ از علامہ سیوطی اور تحفۃ الاحوذی۔ علامہ البانی رحمہ اللہ ’’مشکوٰۃ‘‘ کے حاشیہ پر فرماتے ہیں: ((فان للحدیث طرقا و شواہد کثیرۃ ، یقطع الواقف علیھا۔ فان للحدیث أصلا أصیلا خلافا لمن حکم علیہ بالوضع أو قال إنہ باطل)) ’’اس حدیث کے بہت سارے طُرق اور شواہد ہیں۔ ان پر مطلع ہونے والا اس نتیجہ پر پہنچتا ہے، کہ یقینا اس حدیث کی اصل ہے ۔ بخلاف اس کے جس نے اس پر من گھڑت ہونے کا حکم لگایا ہے یا کہا، کہ یہ حدیث باطل ہے۔‘‘ پھر فرماتے ہیں:’’علامہ ابو الحسنات لکھنوی نے((اَلآثار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ )) (ص: ۳۵۳؍۳۷۴) میں کافی تحقیق کی ہے۔ جو بسط و تفصیل چاہتا ہے۔ اسے اس کی طرف مراجعت کرنی چاہیے۔ ((فَإِنَّہٗ یُغنِی عَن کُلِّ مَا کَتَبَ فِی ھٰذَا المَوضُوعِ )) (۱؍۴۱۹) ’’اس مسئلہ پر جو کچھ لکھا گیا ہے۔ وہ سب سے کافی ہے۔‘‘ اس ساری بحث سے معلوم ہوا، کہ جن علماء نے ’’صلاۃ التسبیح‘‘ کو بدعت قرار دیا ہے۔ ان کا نظریہ مرجوح ہے۔ بلکہ اس کا مسنون ہونا بدلائل قویہ ثابت ہوتا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! (( أَجوِبَۃُ الحَافِظِ عَن اَحَادِیثِ المَصَابِیحِ فِی آخِرِ المِشکٰوۃِ بِتَحقِیقِ الأَلبَانِی)) صلوٰۃ التسبیح کے متعلق روایات کی استنادی حیثیت کیا ہے؟ سوال: صلوٰۃُ التسبیح کے بارے میں محققین فرماتے ہیں کہ احادیث ابن ماجہ اور بیہقی وغیرہ میں آئی ہیں صحیح
Flag Counter