Maktaba Wahhabi

648 - 829
جواب: بظاہر مسئلہ ہذا میں وسعت ہے۔ البتہ بہتر یہ ہے کہ مقتدی پیچھے ہٹے۔ اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب قبیلہ بنی عمرو بن عوف میں صلح کی غرض سے تشریف لے گئے تھے، واپسی پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ امامت کے مصلیٰ پر کھڑے تھے۔ آپ کی آمد کے احساس کے فوری بعد اقتداء کی صورت میں وہ پیچھے ہٹ گئے ۔ اصل الفاظ ملاحظہ فرمائیں! ((ثُمَّ استَاخَرَ اَبُوبَکرٍ حَتَّی استَوٰی فِی الصَّفِّ، وَ تَقَدَّمَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَصَلَّیٰ)) [1] یعنی ’’پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ پیچھے ہٹ گئے حتی کہ صف میں برابر ہو گئے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی۔‘‘ نیز بعد میں آنے والا تیسرا شخص نماز میں داخل ہو کر امام کے بائیں جانب اس حالت میں بیٹھ جائے جس میں امام کو پائے۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ یہ آدمی جماعت کے اجر و ثواب سے محروم نہیں رہے گا۔ اگرچہ ’’مِن کُلِّ الوُجُوہ ‘‘ تمام اعتبار سے، شریک امام نہیں سمجھا جائے گا۔ دو آدمیوں کی باجماعت نماز میں تیسرا کیسے شامل ہو؟ سوال: اگر دو آدمی نماز پڑھ رہے ہوں، ایک امام ہو اور دوسرا مقتدی۔ تیسرا شخص آنے کی صورت میں امام آگے بڑھے یا مقتدی پیچھے ہٹے؟ جواب: مسئلہ ہذا میں بظاہر دونوں طرح وسعت ہے۔ حسبِ حال کسی بھی صورت کو اختیار کیا جاسکتا ہے۔ دو کی جماعت میں تیسرا حالت تشہد میں کیسے ملے؟ سوال: کیا اگر دو آدمی جماعت کروا رہے ہوں تو تیسرے آدمی کے آنے پر اگر وہ دو آدمی رکوع یا التحیات میں ہوں تو اس صورت میں کیا کیاجائے گا برائے مہربانی قرآن وحدیث کی روشنی میں اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں۔ جواب: جب جماعت دو سے ہو، تو مقتدی کا مقام دائیں طرف ہے۔ جس طرح کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر رات کی نماز میں اپنے دائیں طرف کھڑا کیا تھا اور جب
Flag Counter