Maktaba Wahhabi

488 - 829
درست نہیں۔ کیونکہ سلیمانی نے متہم بالوضع کہا ہے، کما فی ’’المیزان‘‘ پس درحقیقت وہ وَضَّاع نہیں ہے۔ صرف اس پر اِتِّہام ہے۔ اس لیے امام خطیب بغدادی نے ان کی توصیف کی ہے۔ ((ما لفظہ لا یسمع عنہ الاخیر))(لسان المیزان) اور حافظ ذہبی نے حکم وضع کا نہیں لگایا، یہ آپ کی خوش فہمی کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ حافظ صاحب ’’میزان‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’اتہمہ السلیمانی بوضع الحدیث۔‘‘ یعنی یہ ان پر اتہام ہے درحقیقت کوئی جرح نہیں۔ آپ نے اپنی خوش فہمی سے حافظ ذہبی پر اس کو وضاع کہنے کا الزام لگایا۔ ولنعم ما قیل: وَ کَم مِن عَائِبٍ قَولًا صَحِیحًا… وَ آفتُہ مِنَ الفَھمِ السَّقِیمِ کیونکہ یہ روایت بطریقِ محدثین ضعیف وموضوع ہوتی، تو بڑے بڑے حفاظ اس روایت کو ذکر کرکے سکوت نہ کرتے۔ جب کہ وہ ادنی ادنی ضعف کو ذکر کرکے روایت کو مجروح قرار دیتے ہیں اور مولانا عبدالرحمن صاحب نے جو ’’ابکار المنن‘‘ میں سکوت کیا ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہی معلوم ہوتی ہے۔ کہ مولانا موصوف نے اس قول کو لغو اور قابلِ جواب نہیں سمجھا۔ یا مولانا نے اس پر مفصل لکھنے کا ارادہ کیا ہو۔ اس وجہ سے اس جگہ مسامحت سے کام لیا۔ ورنہ قول نیموی کا محض بے علمی اور ناواقفی پر مبنی ہے۔ [1] رفع الیدین کرنا او رنمازِ جنازہ وعیدین میں اس کی حیثیت؟ سوال: کیا پیغمبرِ اسلام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رفع یدین کرتے تھے اور آخر تک کرتے رہے؟ کیا نماز عید میں رفع یدین کرتے تھے اور کیا نمازِ جنازہ میں بھی رفع یدین کرنا چاہیے؟ جواب: امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردِ خاص امام محمد رحمہ اللہ اپنی مشہور کتاب موطأ میں رفع الیدین کی صحیح حدیث لائے ہیں۔عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو رفع الیدین کرتے اور جب رکوع کے لئے تکبیر کہتے تو رفع الیدین کرتے اور رکوع سے سراُٹھاتے تو رفع الیدین کرکے سمع اللّٰہ لمن حمدہ اور ربنا لک الحمد کہتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک رفع الیدین کی حدیث صحیح ثابت ہے، منسوخ نہیں۔ امام محمد بن یحییٰ ذہلی کا قول ہے، کہ رفع الیدین نہ کرنے والے آدمی کی نماز ناقص ہو گی۔[2] پھر تکبیر تحریمہ کے وقت رفع الیدین کی ہمیشگی کے حنفیہ بھی قائل ہیں۔ جس دلیل کی بناء پر اس پر ہمیشگی ثابت ہے، اُسی
Flag Counter