Maktaba Wahhabi

453 - 829
مولانا عطا اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کے تبصرے پر جوابِ تبصرہ ( مولانا حافظ ثناء اللہ خاں صاحب) ضعیف خبر اجماع امت کی رُو سے ناقابل ِ اعتبار ہے۔ میں نے مؤقر جریدہ اہلِ حدیث لاہور مجریہ ۲۰؍ اکتوبر ۱۹۷۸ء میں بعض قرآنی آیات کے جواب دینے کے مسئلہ پر قاری کے لیے اس کا استحباب صحیح حدیث سے ثابت کیا تھا اور اس کے ضمن میں سامع کے لیے وارد روایات کا ضعف بھی بیان کیا تھا۔ آخر میں اپنی ترجیحی رائے میں یہ اظہارِ خیال کیا تھا، کہ سامع کے لیے جواب نہ دینے میں احتیاط ہے۔ کیونکہ اس بارے میں احادیث ثابت نہیں ہیں۔اس فتوے کی اشاعت کے لیے مدیراعلیٰ ’’اہلِ حدیث‘‘ نے اپنی مخالفانہ رائے کے لیے یہ اصول پیش کیا تھا کہ ’’ضعیف حدیثوں سے وجوب تو نہیں استحباب بہرحال ثابت ہو جاتا ہے۔‘‘ جس پر میں نے فروعی مسائل میں اہلِ حدیث کے طرزِ فکر و عمل کی وضاحت کے لیے تبصرہ مناسب سمجھا اور اس اصولی بحث پر اپنا آرٹیکل اشاعت کے لیے مختلف رسائل کو بھیجا۔ ہفت روزہ ’’الاسلام‘‘ گوجرانوالہ نے اسے بعینہٖ شائع کیا اور ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور نے بھی عنوان تبدیل کرکے اس کی اشاعت کی۔ ہم واجب الاحترام حضرت مولانا عطاء اللہ صاحب حنیف کے انتہائی شکر گزار ہیں، کہ انھوں نے اس پر اپنی طرف سے ملاحظات بھی پیش فرمائے، اور نفسِ مسئلہ کی نہ صرف پُرزور تائید کی، بلکہ اس سلسلہ میں جماعت اہلِ حدیث کے دو مایہ ناز بزرگوں کے تائیدی کلمات بھی نقل فرمائے۔ اگر صرف فتویٰ کی تائید ہمارا مقصود ہوتی تو ہمارے لیے حضرت مولانا عطاء اللہ صاحب حنیف جیسے بزرگ کی اس مسئلہ پر حتمی رائے کافی تھی، جو ہمارے لیے موقف سے بڑھ کر تائید ہے، لیکن ہمیں یہ یقین نہیں آرہا کہ محترم موصوف اہلِ حدیث مکتبِ فکر کے امتیازی اصولی مسئلہ کے بارے میں محدثین کبار سے اختلاف رائے فرما سکتے ہیں ۔کیونکہ زیرِبحث مسئلہ کی تائید کے ساتھ ہی ہمارے اٹھائے ہوئے اصولی مسئلہ پر انھوں نے تعاقب فرمایا ہے۔ چنانچہ موصوف نے اوّلاً موضوعِ بحث کو کچھ بدل دیا ہے۔ ہمارے زیرِ نظر صرف یہ جائزہ لینا تھا ( کہ ضعیف حدیث سے وجوب تو نہیں استحباب بہرحال ثابت ہوتا ہے) اہلِ حدیث کا اندازِ فکر ہے یا نہیں! لیکن محترم موصوف اس موضوع کو بدل کر فرماتے ہیں: کہ راقم (ثناء اللہ) کے نزدیک حدیثِ ضعیف مطلقاً ناقابلِ اعتبار ہے۔ لیکن مولانا موصوف کی رائے میں یہ اطلاق محل نظر ہے۔ چونکہ ہم پاکستان میں محدثین کا طرزِ عمل و فکر کا انحطاط دیکھ رہے ہیں۔ اس لیے ضروری سمجھتے ہیں کہ اس کی وضاحت مناسب طور پر
Flag Counter