Maktaba Wahhabi

701 - 829
رہتے۔‘‘ دوسری روایت میں ہے: ((کَانَ اِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ الاَوَاخِرَ اَحْیَا اللَّیْلَ وَ اَیْقَظَ اَھْلَہٗ وَ شَدَّ الْمِئْزَرَ))(متفق علیہ) [1] یعنی ’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب رمضان کا آخری عشرہ آجاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساری رات خود بھی جاگتے ، اپنے اہل کو بھی بیدار رکھتے اور عبادت میں مصروف رہتے۔‘‘ تیسری روایت میں ہے: ((فَاَعِنِّیْ عَلٰی نَفْسِکَ بِکَثْرَۃِ السُّجُوْد)) [2] یعنی نوافل کثرت سے پڑھ۔‘‘ ان احادیث سے دوسرے گروہ کے لیے استدلال ہو سکتا ہے کہ آٹھ رکعات تراویح کے علاوہ عام نوافل کی حیثیت سے اضافہ کا کوئی حرج نہیں۔ زائد رکعات کی کوئی حد بندی نہیں، جس طرح کہ جمعہ سے پہلے نوافل کی کوئی حد بندی نہیں: ((فَصَلّٰی مَا کُتِبَ لَہٗ)) [3] اسی بنا ء پر سلف صالحین سے مختلف عدد منقول ہیں۔ اور جو انتالیس تک بیان کیے جاتے ہیں۔ اسی لیے یہ کہنا درست ہے کہ آٹھ رکعت مسنون ہیں اور مذکورہ نصوص کی بناء پر مزید پر جواز کا اطلاق ہے۔ نہ کہ سنیت کا۔ اس کے باوجود احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ مسنون رکعت پر اکتفاء کی جائے اور قیام اللیل کو لمبا کردیا جائے۔ چنانچہ ایک موقعہ پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کونسی نماز افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کا قیام لمبا ہے۔‘‘ [4] ۳۔ صرف اس فعل کی بنا پر امام مذکور کی اقتداء میں فرض نماز ادا نہ کرنا غیر درست ہے۔ ۴۔ امام صاحب کے اس فعل سے اگر فتنہ کا ڈر ہو تو انھیں وہی کردار ادا کرنا چاہیے جو رحمتِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ کی ترمیم کے سلسلہ میں ادا کیا تھا۔یعنی عزم کے باوجود بناء کعبہ میں تصرف کا ارادہ ترک کردیا اور فرمایا: ((یَا عَائِشَۃُ لَوْ لَا اَنَّ قَوْمَکِ حَدِیْثٌ عَھْدِھِمْ قَالَ ابْنُ الزُّبَیْرِ بِکُفْرٍ لَنَقَضْتُ الْکَعْبَۃَ فَجَعَلْتُ لَھَا بَابَیْنِ)) [5] یعنی اے عائشہ رضی اللہ عنہا ! اگر تیری قوم نئی نئی مسلمان نہ ہوئی ہوتی… ابن الزبیر نے کہا، یعنی کفر سے
Flag Counter