Maktaba Wahhabi

164 - 829
ان شواہد کی بنا پر علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کو ثقات کے زمرہ میں شمار کیا ہے۔ ثانیاً:محمد بن اسحق کی تدلیس کا جواب یہ ہے کہ سیرت ابن ہشام میں ابن اسحق کی تحدیث کی تصریح موجود ہے، اس طرح یہ اعتراض بھی رفع ہوجاتا ہے۔ الفاظ یوں ہیں: قال ابن اسحٰق حدثنی محمد بن جعفر بن الزبیر ان وجوہات کی بنا پر حافظ ابن حجر، ابن دقیق العید اور شیخ البانی رحمہم اللہ نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے اور یہی بات راجح ہے۔جرح و تعدیل کے سلسلہ میں توضیح الافکار کے حواشی پر علامہ محمد محی الدین عبدالحمید رقمطراز ہیں: (( واختار شیخ الاسلام تفصیلاً حسنا،فإن کان من جرح مجملًا قد وثقہ احد من ائمۃ ہذا الشان لم یقبل الجرح فیہ من احد کائنا من کان إلا مفسرًا، لانہ قد ثبتتْ لہ رتبۃ الثقۃ فلا یزحزح عنہا إلا بامر جلی فإن ائمۃ ہذا الشان لا یوثقون إلامن اعتبروا حالہ فی دینہ ثم فی حدیثہ نقدوہ کما ینبغی،وہم ایقظ الناس ، فلا ینقض حکم احدہم إلا بامر صریح وإن خلا عن التعدیل قبل الجرح فیہ غیر مفسر إذا صدر من عارف، لانہ إذا لم یعدل فہو فی حیز المجہول وإعمال قول المجرح فیہ اولیٰ من إہمالہ. انتہی کلامہ (۱۳۵؍۲) (کس طرح کی جرح قبول ہو گی؟اس کے بارے میں) شیخ الاسلام ابن حجر رحمہ اللہ نے تفصیل کے پہلو کو اختیار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی راوی کے بارے میں جرح مجمل ہو،لیکن فن حدیث کے کسی امام نے اس راوی کو ثقہ قرار دیا ہے تو اس صورت میں خواہ کوئی بھی ہو،اس راوی پر اس کی مجمل جرح کو قبول نہیں کیاجائے گا،بلکہ اس صورت میں جرح مفسر ہی قابل قبول ہو گی،کیونکہ اس کی ثقاہت ثابت ہو چکی ہے اور کسی واضح امر کے بغیر اس کی ثقاہت کو زائل نہیں کیاجا سکتا ،کیونکہ ائمہ فن نہایت بیدار مغز لوگ تھے۔وہ کسی شخص کو ثقہ قرار دینے سے پہلے اس کی دینی حالت کاجائزہ لیتے، اس کی حدیث کو اچھی طرح پرکھتے تھے ۔تو اگر ان میں سے کسی نے پوری تحقیق اور چھان بین کے بعد کسی شخص کے ثقہ ہونے کا فیصلہ دیا ہے تو کسی واضح دلیل کے ساتھ ہی اس فیصلہ کو ردّ کیا جا سکتا ہے ،البتہ اگر کسی نے اس کی تعدیل نہیں کی تو تب غیر مفسر جرح بھی قبول کر لی جائے گی، بشرطیکہ وہ کسی ماہر فن کی طرف سے ہو کیونکہ جب کسی نے بھی اس کی تعدیل وتوثیق نہیں کی تو گویا وہ مجہول ہے اور کسی مجہول شخص پر جرح کرنیوالے کی بات کو قابل عمل قرار دینا اسے متروک اور مہمل
Flag Counter