Maktaba Wahhabi

775 - 829
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو لیجیے ان سے کسی نے دریافت کیا کہ مسافر، مقیم امام کی اقتداء میں دو رکعتیں پا لیتا ہے تو کیا اس کو دو رکعتیں کافی ہو سکتی ہیں یا پوری پڑھے؟ انھوں نے مسکراتے ہوئے فرمایا: کہ پوری پڑھے۔[1] بسندِ صحیح ثابت ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے منیٰ میں حضرت عثمان کی اقتداء میں نماز پوری پڑھی تو فرمایا: ((فَلَیتَ حَظِّی مِن أَربَعِ رَکَعَاتٍ رَکعَتَانِ )) [2] ’’کاش چار رکعتوں سے دو رکعتیں ہی میرے حصے میں آجائیں۔‘‘ اس پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ((وَ ھٰذَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّہٗ کَانَ یَرَی الإِتمَامَ جَائِزٌ وَ إِلَّا لَمَا کَانَ حَظٌّ مِنَ الأَربَعِ وَ لَا مِن غَیرِھَا ، فَإِنَّھَا کَانَت فَاسِدَۃٌ کُلُّھَا )) [3] ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ قول دلالت کرتا ہے کہ ان کے نزدیک پوری نماز پڑھنا جائز تھا ، بصورتِ دیگر ساری فاسد ہوتی تھی۔(مسند احمد:۲؍۱۰۸) میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوع روایت میں ہے: ((إِنَّ اللّٰہُ یُحِبُّ أَن تُوتٰی رُخصَۃٌ کَمَا یَکرَہُ اَن تُؤتٰی مَعصِیَتَہٗ)) [4] ’’ اﷲ کو پسند ہے کہ اس کی رخصتوں پر عمل کیا جائے، جس طرح اسے اپنی نافرمانی ناپسند ہے۔‘‘ اس حدیث میں قصر کا نام ’’رخصت‘‘ رکھا گیا ہے، جو ’’عزیمت‘‘ کی ضد ہے۔ اس بناء پر زیرِبحث حدیث کی سابقہ تاویل درست ہے۔ بالخصوص جب کہ دونوں روایتوں کے راوی ابن عمر رضی اللہ عنہما ہیں۔ حضرت عائشہ اور عثمان رضی اللہ عنہما سے بحالتِ سفر نماز پوری پڑھنا صحیح بخاری میں ثابت ہے: ((بَابٌ یَقصُرُ إِذَا خَرَجَ مِن مَوضِعِہٖ۔))مسئلہ ہذا کی مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو! تفسیر اضواء البیان(۱؍۳۱۷۔۳۲۱) سوال میں مشارٌ الیہ روایت حافظ نور الدین ہیثمی رحمہ اللہ ’’ مجمع الزوائد‘‘(۲؍۱۵۴،۱۵۵) میں بطریقِ مورق ذکر کرکے فرماتے ہیں: ((رِجَالُہٗ رِجَالُ الصَّحِیحِ)) اس حدیث کے سب راوی صحیح کے راوی ہیں۔ یعنی صحیح کے راویوں کی صفات کے حامل ہیں۔ اَلمُحَلّٰی کی روایت کے بارے میں علامہ احمد محمد شاکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
Flag Counter