Maktaba Wahhabi

774 - 829
اس حدیث کی استنادی حیثیت کیا ہے ، نیز کیادورانِ سفر مکمل نماز پڑھنے والا واقعی کافر ہے ؟ کیا محدثین کی یہی رائے ہے ؟ حضرت عثمان اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کا سفر میں قصر نہ کرنا ثابت ہے یا نہیں؟ نیز کیا مولانا عبد القادر حصاروی مرحوم کا یہ بیان درست ہے کہ نماز دوگانہ ہی پڑھنی چاہیے۔ تفصیلی جواب سے نوازیں۔ جواب: مذکورہ بالا حدیث میں لفظ’کفر‘ محض ڈانٹ اور سختی پر محمول ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے بہت سے شواہد ہیں ۔چنانچہ صحیح بخاری میں ((بَابُخَوفِ المُومِنِ مِن أَن یَحبَطَ عَمَلُہٗ وَ ھُوَ لَا یَشعُرُ )) کے تحت حدیث ہے کہ (( سِبَابُ المُسلِمِ فُسُوقٌ، وَ قِتَالُہٗ کُفرٌ )) [1] ’’مسلمان کو گالی گلوچ کرنا فسق و فجور اور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے۔‘‘ اس کی تشریح میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ((وَلَم یُرِد حَقِیقَۃَ الکُفرِ الَّتِی ھِی الخُرُوجِ عَنِ المِلَّۃِ، بَل أُطلِقَ عَلَیہِ الکُفرُ مُبَالَغَۃً فِی التَّحذِیرِ مُعتَمِدًا عَلٰی مَا تَقَرَّرَ مِنَ القَوَاعِدِ أَن مِثلَ ذٰلِکَ لَا یُخرِجُ عَنِ المِلَّۃِ )) [2] ’’اس سے مقصود ملت سے خارج کردینے والا کفر نہیں، بلکہ تحذیر اور وعید میں مبالغے کے لیے اس پر کفر کااطلاق ہوا ہے۔ معتمد قواعد(قواعد پر اعتماد کرنے) کی بناء پر اس طرح کے اعمال سے آدمی ملت سے خارج قرار نہیں پاتا۔‘‘ اسی طرح’’صحِیحُ البُخَارِی‘‘ بَابُ الاِنصَاتِ لِلعُلَمَائِ )) کے تحت الفاظ حدیث یوں ہیں: ((لَا تَرجِعُوا بَعدِی کُفَّارًا یَضرِبُ بَعضُکُم رِقَابَ بَعضٍ )) [3] ’’میرے بعد کفر کی طرف مت لوٹنا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگ جاؤ۔‘‘ اس کی توضیح میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((وَالمَعنٰی لَا تَفعَلُوا فِعلَ الکُفَّارِ فَتَشبُھُوھُم فِی حَالَۃِ قَتلِ بَعضِھِم بَعضًا )) [4] مفہوم اس کا یہ ہے کہ ایک دوسرے کے قتل میں کفار سے مشابہت مت اختیار کرنا۔ ان روایات سے مسؤلہ روایت کی وضاحت ہو جاتی ہے۔ پھر علمائے سلف سے کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں کہ سفر میں اِتمام ( نماز پوری پڑھنے) کی صورت میں کفر لازم آتا ہے۔حدیث ہذا کے راوی
Flag Counter