Maktaba Wahhabi

675 - 829
(( وَ فِی الصَّلَاۃِ نَوعٌ ثَالِثٌ: فَإِنَّ المَرأَۃَ لَو صَلَّت وَحَدَھَا کَانَت مَأمُورَۃٌ بِالاِختِمَارِ۔ وَ فِی غَیرِ الصَّلَاۃِ یَجُوزُ لَھَا کَشفُ رَأسِھَا، فَأَخذُ الزِّینَۃِ فِی الصَّلٰوۃِ حَقُّ اللّٰہِ، فَلَیسَ لِأَحَدٍ أَن یَّطُوفَ بِالبَیتِ عُریَانًا، وَ لَو کَانَ وَحَدَہٗ بِاللَّیلِ، وَ لَا یُصَلِّی عُریَانًا، وَ لَو کَانَ وَحدَہٗ۔ فَعُلِمَ أَن أَخذَ الزِّینَۃِ لَم یَکُن فِی الصَّلَاۃِ لِتَحتَجِبَ عَنِ النَّاسِ فَھٰذَا نَوعٌ ۔ وَ ھٰذَا نَوعٌ)) ’’ نماز میں سَتر و حجاب کی ایک تیسری قسم ہے : چنانچہ عورت اگر اکیلی نماز پڑھے، تو اسے دوپٹہ لینے کا حکم ہے، جب کہ نماز کے علاوہ اسے گھر میں سَر ننگا رکھنے کی اجازت ہے۔ تو اس طرح نماز میں زینت اپنانا اﷲ کے حق کی وجہ سے ہے۔ اسی بناء پر کسی کو برہنہ حالت میں بیت اﷲ کا طواف کرنے کی اجازت نہیں، خواہ وہ بوقت ِ شب اکیلا ہو اور نہ برہنہ نماز پڑھنے کی ہی اجازت ہے، خواہ اکیلا ہو۔ اس سے معلوم ہوا، کہ نماز میں زینت اپنانے کا مقصد لوگوں سے پردہ کرنا نہیں ہے۔ پردے کی یہ صورت اور ہے اور جب کہ عام حالات میں پردہ کرنا دوسری صورت ہے۔‘‘ چنانچہ نماز کی حالت میں نمازی وہ اعضاء بھی ڈھانپتا ہے، جن کا نماز کے علاوہ ظاہر کرنا جائز ہے۔ اسی طرح نماز ہی میں بعض اُن اعضاء کو ظاہر کرتا ہے، جن کا مردوں سے بھی ڈھانپنے کا حکم ہے۔ پہلی صورت کی مثال کندھے ہیں۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو ایک کپڑے میں اس طرح نماز پڑھنے سے منع فرمایا: کہ اس کے کندھے پر چادر کا کوئی حصہ ہی نہ ہو تو یہ نماز کے حق کی وجہ سے ہے ، مگر نماز کے سوا اسے مردوں کے سامنے کندھے ننگے کرنا جائز ہے۔ اسی طرح آزاد عورت کو نماز میں دوپٹہ اوڑھنے کا حکم ہے ، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لَا یقبَلُ اللّٰہُ صَلٰوۃَ حَائِضٍ اِلَّا بِخِمَارٍ)) [1] ’’بالغ عورت کی نماز ، اﷲ دوپٹے کے بغیر قبول نہیں کرتا۔‘‘ حالانکہ اسے خاوند اور محرم مردوں کے پاس دوپٹہ لینا ضروری نہیں، بلکہ وہ ان لوگوں کے پاس باطنی زینت کو ظاہر کر سکتی ہے ، لیکن نماز کی حالت میں نہ وہ ان لوگوں کے سامنے سَر ننگا کر سکتی ہے، نہ دوسروں کے سامنے ، جب کہ چہرہ، ہاتھ اور پاؤں کا حکم اس کے برعکس ہے۔ دو اقوال میں سے صحیح ترین قول کے مطابق وہ
Flag Counter