Maktaba Wahhabi

670 - 829
یہ سُن کر حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: عورتیں اپنے کپڑوں سے کیا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مردوں سے بالشت برابر مزید لٹکا لیا کریں۔‘‘ [1] انھوں نے عرض کیا، کہ یوں تو ان کے قدم ننگے ہو جائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایک ہاتھ کے برابر لٹکا لیا کریں اس سے زیادہ نہیں۔‘‘ یہ روایت ترمذی(۳؍۴۷) اور ’’نسائی‘‘ وغیرہ میں سند صحیح سے مروی ہے اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: (( وَفِی ھٰذَا دَلِیلٌ عَلٰی وُجُوبِ سَترِ قَدَمَیھَا )) [2] ’’یہ حدیث دلیل ہے کہ عورت کے لیے قدموں کو ڈھانپنا واجب ہے۔‘‘ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس موضوع پر مختصراً نفیس بحث کی ہے۔ شائقین اس کے لیے’’حجاب المرأۃ المسلمۃ‘‘ (۳۶۔۳۷) ملاحظہ فرمائیں!لکھتے ہیں: (( وَ عَلٰی ھٰذَا جَرَی العَمَلُ مِنَ النِّسَآئِ فِی عَھدِہٖ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، وَ مَا بَعدَہٗ )) [3] ’’عورتوں کے لیے پاؤں ڈھانپنے پر ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عمل رہا ہے۔‘‘ مزید تشفی کے لیے عرض ہے۔حضرت محدث روپڑی رحمہ اللہ سے دریافت کیا گیا، کہ سَتر کی تفصیل کیا ہے ؟ انھوں نے فرمایا: ’’سترِ عورت شرط ہے۔ یعنی ناف سے گھٹنوں تک مرد کے لیے اور عورت کے لیے سارا وجود، منہ اور ہاتھ کے سوا، پشت پاؤں تک ڈھانکنا ضروری ہے۔‘‘ (فتاویٰ اہل حدیث:۲؍۲۰،۲۱) لہٰذا عورت کے لیے ضروری ہے، کہ عام حالات میں بھی پاؤں کی پشت ڈھانپ کر رکھے، کیونکہ یہ بھی ’’سَتر‘‘ میں شامل ہے اور جب عام حالت میں بھی یہ حکم ہے تو نماز میں بھی یہی حکم ہے، کہ عورت کے پاؤں کی پُشت ڈھکی ہوئی ہو۔ اس بارے میں ابوداؤد کی روایت تو بلاشبہ ضعیف ہے۔ جیسا کہ محترم حافظ صاحب حفظہ اللہ نے إرواء الغلیل کے حوالے سے نقل کیا ہے، مگر اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم اس روایت کا مؤید ہے۔ علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ نے تو کہا ہے کہ:
Flag Counter