Maktaba Wahhabi

632 - 829
﴿ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ ﴾ (العلق:۱۹) ’’اور سجدہ کرو اور قرب (الٰہی) حاصل کرتے رہو۔‘‘ صحیح مسلم میں حدیث ہے:((اَقرَبَ مَایَکُونُ العَبدُ مِن رَّبِّہ،ٖ وَھُوَ سَاجِدٌ۔ فَاَکثِرُوا الدُّعَائَ )) [1] ’’سجدے کی حالت میں بندہ اپنے رب کے انتہائی قریب ہوتا ہے، لہٰذا بکثرت دعا کیا کرو۔‘‘ باقی رہی یہ بات کہ تمام علمائے حدیث کا عمل عید کے بعد اجتماعی دعا پر رہا ہے۔ تو یہ حقیقت کے خلاف ہے۔ بلکہ بات یوں ہے، کہ محققین اہلِ علم کبھی اس بات کے قائل نہیں رہے۔ کیونکہ اس کی کوئی سند نہیں۔ ہمارے شیخ حافظ محمد محدث گوندلوی رحمہ اللہ کے شاگرد رشید علامہ عبیداللہ رحمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (( لَم یَثبُت عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ دُعَائٌ بَعدَ صَلٰوۃِ العِیدَینِ، وَ لَم یَنقُلِ الدُّعَائَ اَحَدٌ بَعدَھَا)) [2] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عیدین کے بعد دعا ثابت نہیں ہوسکی۔اور نہ کسی نے اس کے بعد دعا نقل کی ہے۔‘‘ لہٰذا عمل دلیل کے تابع ہونا چاہیے۔ نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا دعا میں طریقہ وہی تھا، جس کی سنت سے وضاحت ہوچکی، اور صحابیات سوال: بھی اسی پر عمل پیرا تھیں۔ میرے اس فتوے پر ’’محدث ‘‘ لاہور (ربیع الاول ۱۴۲۳ھ) میں مولانا محمد رمضان سلفی صاحب (استاذ جامعہ لاہور الاسلامیہ) نے بایں تعلیق فرمائی ہے: ’’محترم حافظ صاحب کی سجدہ والی مثال حائضہ عورت کے حوالہ سے واضح نہیں ہے، کیونکہ حائضہ عورت نماز نہیں پڑھتی۔ البتہ حدیث میں وارد لفظ ’’ودعوتھم‘‘ کی دعا کے ساتھ تفسیر صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ صحیح البخاری میں ہے۔ (( عَن أُمِّ عَطیَۃَ، قَالَت: کُنَّا نُؤمَرُ أَن نَخرُجَ یَومَ العِیدِ حَتَّی نُخرِجَ البِکرَ مِن خِدرِہَا، حَتَّی نُخرِجَ الحُیَّضَ، فَیَکُنَّ خَلفَ النَّاسِ، فَیُکَبِّرنَ بِتَکبِیرِہِم، وَیَدعُونَ بِدُعَاۂم یَرجُونَ بَرَکَۃَ ذَلِکَ الیَومِ وَطُہرَتَہُ ) [3] ’’حضرت اُم عطیہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہمیں عید کے دن نکلنے کا حکم ہوتا۔ یہاں تک کہ ہم کنواری اور حیض والی عورتوں کو بھی ساتھ لے جائیں۔ وہ لوگوں کے پیچھے سے مردوں کے ساتھ تکبیریں کہتیں اور ان کی دعا میں شریک ہوتی تھیں…۔‘‘ حدیثِ نبوی سے ہی لفظ ’دعوت، کی وضاحت آجانے کے بعد دیگر معانی کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔‘‘
Flag Counter