Maktaba Wahhabi

631 - 829
سوال: ۱۰؍ مئی (۲۰۰۲ء) کے ’’الاعتصام‘‘ میں ایک سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا: کہ نمازِ عید کے بعد اجتماعی دعا کا ثبوت نہیں، اور بے ثبوت شے کا اختیار کرنا خطرے سے خالی نہیں۔ اس ضمن میں عرض ہے کہ خاکسار گزشتہ پون صدی کے دوران ملک ہندو پاک کے مختلف شہروں میں عید کی نمازوں میں شامل ہوتا رہا اور ہر جگہ خطبے کے بعد اجتماعی دعا ہی ہوتی رہی۔ بلکہ علمائے کرام اور ائمہ نماز عید کے دن اس عمل کی تاکید بھی فرماتے رہے۔ خصوصاً ’’صحیحین‘‘ کے حوالے سے جہاں حائضہ عورتوں کی عید کے اجتماع میں شمولیت کی تاکید ہے یعنی ((وَیَشھَدنَ الخَیرَ ، وَ دَعوَۃَ المُؤمِنِینَ‘ اور ’فَیَشھَدنَ جَمَاعَۃَ المُسلِمِینَ وَ دَعوَاتِھِم‘[1] ’یَشھَدنَ الخَیرَ، وَ دَعوَۃَ المُسلِمِینَ)) [2] یومِ عیدمیں اجتماعی دعا کو سنت کے مترادف خیال کیا جاتا رہا۔ مگر اب اس کے بدعت ہونے کا فتوٰی دیا جانے لگا ہے۔ محولہ بالا احکام نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے باوصف اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رضی اللہ عنہ کا معمول اجتماعی دعا کا نہیں تھا، تو اس کا ثبوت بھی ہونا چاہیے کہ ان کا طریق کار کیا تھا؟ کیا وہ (مرد و زن) خطبے کے فوراً بعد عیدگاہ کو چھوڑ دیتے تھے یا انفرادی دعائیں مانگتے رہتے تھے۔ جب کہ کسی کی دعا قلیل اور کسی کی طویل ہوسکتی تھی۔ بات کچھ سمجھ میں نہیں آ رہی، کہ مسلک اہلِ حدیث کے علماء کرام نے بھی اس ’’بدعت‘‘ کو کیسے جاری رکھا ہوا ہے۔ جن عورتوں کو نماز کی معافی ہو ان کی عیدگاہ میں حاضری کے لیے تاکید کا مقصد کیا ہوسکتا ہے؟ صرف خطبہ سن کر چلے جانا یا کچھ اور بھی؟ مسئلہ کی وضاحت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔ جواب: ظاہر یہ ہے، کہ مشارٌ الیہ حدیث میں دَعوَۃَ المُسلِمِینَ سے مراد خطبہ عیدین میں ذکر و اذکار اور کلماتِ وعظ و نصیحت ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہوسکا، کہ عیدین کے بعد دعا کی۔ احادیث کے راویوں میں سے کبھی کسی راوی نے بھی اس بات کا تذکرہ نہیں کیا۔ بلکہ اس وقت جو شے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ وہ یہ ہے، کہ مسلمانوں کی جملہ حاجات و ضروریات کا جائزہ لے کر ان کے حل کی سعی فرماتے ۔ حقیقتاً جب ساری ہیئت اجتماعی دعا ہی ہے، تو پھر خود ساختہ تکلفات میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے، جس میں بجائے فائدے کے نقصان کا پہلو یقینی ہے۔ حقیقت یہ ہے، کہ یہ سبھی کچھ رُوحِ نماز سے غفلت کا نتیجہ ہے۔ ورنہ نماز تو مُناجاتِ رب اور قرب الٰہی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
Flag Counter