Maktaba Wahhabi

612 - 829
شریعت کی قولی و فعلی تشریحات کتب ِاحادیث اور ان کی شروح میں محفوظ ہیں جن کے ذریعے ایک طالب ِحق بآسانی مطلوبہ مقاصد سے آگاہی حاصل کرسکتا ہے۔ بالخصوص نما زایک عظیم فریضہ ہے جس کی جملہ جزئیات کا عملی نمونہ ہمہ وقت آپ صلی الله علیہ وسلم خود تھے اور صحابہ کرام کی ایک بڑی جماعت آپ کی اقتدا میں پانچوں وقت نمازیں پڑھتی تھی۔ اُنہوں نے ہر اعتبار سے نماز کے مسائل کی وضاحت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مگر ان سے کسی ایک فرد نے بھی نماز کے بعد اجتماعی دعا کاذکر تک نہیں کیا۔ پھر محدثین عظام جن کی حدیثی خدمات اظہر من الشمس ہیں جنہوں نے ایک ایک فرمانِ نبوی سے بے شمار مسائل کا استنباط واستخراج کیا، کبھی کسی نے کسی روایت سے فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کا وجوب یا استحباب کا مسئلہ اَخذ نہیں کیا۔ یہاں تک کہ اجتماعی دعا کے قائلین نے جن روایات کو اپنے استدلال کی بنیاد بنایا ہے، وہ بھی ذخیرۂ حدیث میں موجود اور محدثین کے سامنے تھیں۔ لیکن اس کے باوجود آپ ائمہ محدثین کے ابواب و تراجم کو اٹھا کر دیکھیں، آپ کو اجتماعی دعا کے فرض یا استحباب پرادنیٰ سی جھلک بھی نظر نہیں آئے گی۔ اجتماعی دعا کے قائلین کے دلائل اور ان پر محاکمہ درج ذیل ہے: ۱۔ بطورِ مثال حضرت ابوامامہ کی روایت کو لیجئے ... رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ دعاکس وقت زیادہ قبول ہوتی ہے۔ ارشاد فرمایا: جوف اللیل الآخر ودبر الصلوات المکتوبات رات کے آخری حصہ میں اور فرض نمازوں کے بعد۔ [1] یہ روایت ابواب ماجاء فی جامع الدعوات کے ضمن میں بیان ہوئی ہے اور امام ترمذی نے اس پر حسن کا حکم لگایاہے۔ اصل صورت ِحال یہ ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے، اس میں ابن جریج مدلس راوی ہے ۔ دارقطنی نے کہا کہ بدترین تدلیس ابن جریج کی ہے کیونکہ وہ تدلیس اس وقت کرتا ہے جب اس نے حدیث کسی مجروح سے سنی ہو۔ اسی امر کی صراحت حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی کتاب طبقات المدلسین میں بھی موجود ہے اور روایت ِہذا کو ابن جریج نے عنعنہ سے ذکر کیا ہے، سماع اور تحدیث کی صراحت نہیں کی۔ دوسری بات یہ ہے کہ سند میں انقطاع ہے کیونکہ اس میں راوی عبدالرحمن بن سابط کا ابن جریج سے سماع ثابت نہیں، امام ابن معین نے یہی کچھ کہا ہے۔ پھر یہ بھی یاد رہے کہ اس حدیث میں دبرالصلوات المکتوبات کا اضافہ ’’شاذ‘‘ہے۔ کیونکہ اس حدیث کی ابوامامہ سے پانچ سندیں اور بھی ہیں جن میں یہ اضافہ نہیں بلکہ صرف پہلے ٹکڑے جوف اللیل الاٰخر پر اکتفا کیا گیا ہے۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو:الفتوحات الربانیۃ: ۳؍۳۰ اگر اس حدیث کو مان بھی لیاجائے تب بھی چونکہ اس حدیث میں اجتماعی دعا کا تو ذکر ہی نہیں ، اس لئے
Flag Counter