Maktaba Wahhabi

611 - 829
ِاجتماعی دعا (یعنی علماء) کو بعض جگہ پر بہت سخت الفاظ کہہ جاتے ہیں جس کا اندازہ دونوں کتابیں پڑھنے سے ہوتا ہے۔ اب آپ بتائیں کہ ایسی صورتحال میں ہم کیا کریں۔ دونوں طرف اہل حدیث علماء ہیں کچھ سنت بتلا رہے ہیں اور کچھ بدعت (معاملہ سنت اور بدعت کا ہے)۔ اس سلسلے میں بہت سے سوال ذہن میں اٹھتے ہیں مثلاً :۱۔ اہلحدیث علماء میں اتنا ا ختلاف کیوں ہے؟ ۲۔ کیا واقعی یہ دعا بدعت ہے؟ اگر ہے تو پھر جو علماء اسے سنت سمجھتے ہیں، بالخصوص جن کا میں نے ذکر کیا ہے، ان کی کتابوں میں جو دلائل ہیں ان کا کیا کریں؟ ۳۔ اور اگر بدعت نہیں ہے تو جو علماء اسے بدعت سمجھتے ہیں، وہ کن دلائل کی رو سے اسے بدعت کہتے ہیں؟ ۴۔ یا پھر یہ مسئلہ اجتہادی ہے (سنت ، بدعت والا کوئی مسئلہ نہیں) جس کی جو تحقیق ہو عمل کرے۔ دونوں طرح ٹھیک ہے... گنجائش موجود ہے؟ ۵۔ انفرادی دعا فرائض یا سنن کے بعد باقاعدگی سے جائز ہے؟ یا کبھی کبھار؟ ۶۔ بعض علماء صرف جمعہ کی نماز کے بعد ہمیشہ دعا کرتے ہیں۔ اس میں شرکت کا کیا حکم ہے؟ میں نے ساری تفصیل سے آپ کو آگاہ کردیا ہے۔ برائے مہربانی دونوں صورتوں میں یعنی اگر بدعت ہے تو سنت کہنے والوں کے تمام دلائل کی حقیقت اور اگر سنت ہے تو منکرین کیوں اسے بدعت کہتے ہیں، مکمل تفصیل سے بیان کریں۔ نیز سابقہ علما اور محدثین کے مسلک کو بھی بیان کریں۔ جزاکم اللہ خیراً (محمد نوید عامر) الجواب بعون الوہاب: بلا شبہ عام حالات میں ہاتھ اُٹھا کر دعا کرنا متعدد احادیث سے ثابت ہے جس میں کوئی شک نہیں ہوناچاہئے۔ اس موضوع پر علامہ سیوطی کا ایک مستقل رسالہ بنام فض الوعاء فی احادیث رفع الیدین فی الدعاء بھی ہے اور اسی موضوع پر حافظ منذری کی بھی ایک تصنیف ہے اور امام نووی نے المجموع شرح المہذب(۴؍۵۰۷تا۵۱۱)میں صفۃ الصلاۃ باب کے آخرمیں صحیحین سے یا دونوں میں سے کسی ایک سے قریباً تیس احادیث جمع کی ہیں جن میں دعا میں رفع الیدین کی تصریح موجود ہے۔ مزید برآں قرآن کی متعدد آیات میں دعا کی صرف ترغیب و تحریض ہی نہیں بلکہ دعا کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ جن کی عملی تفسیر خود رسول اکرم صلي الله عليه وسلم کی ذاتِ گرامی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی علیہم السلام اِِنْ ھُوَ اِِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰیo﴾(النجم:۳،۴) ’’اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خواہش نفس کی پیروی میں بات نہیں کرتے وہ تو وحی ہوتی ہے جو ان پراتاری جاتی ہے۔‘‘
Flag Counter