Maktaba Wahhabi

507 - 829
اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہٗ رَبَّنَاوَلَکَ الحَمدُ مِثلَ مَا یَقُولُ الاِمَامُ. وَ بِہٖ یَقُولُ الشَّافِعِیُّ، وَ اِسحَاقُ)) بھی امام اور مقتدی کی عدمِ تقسیم پر دال ہیں اور ’’دار قطنی‘‘ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: (( کُنَّا اِذَا صَلَّینَا خَلفَ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قَالَ: سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہٗ ۔ قَالَ: من وَّرَاۂ: سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہٗ )) ((رَبَّنَا لَکَ الحَمد)) بھی ، یعنی تقسیم نہیں۔ اس روایت میں اظہر من الشمس ہے کہ امام اور مقتدی دونوں ہی ((سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہٗ‘))کہیں اور آپ سے گزارش ہے کہ آپ اس مسئلہ کی مزید وضاحت فرمائیں تاکہ جملہ اشکال رفع ہو سکیں۔ جواب: مسئلہ ہذا کے تین پہلو ہیں۔ سبھی بحث و تمحیص کے متقاضی ہیں۔ بالاختصار ملاحظہ فرمائیں: 1۔ کیا امام بعد از رکوع صرف تسمیع ((سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہ)) پر اکتفاء کرے یا ساتھ تحمید (( رَبَّنَا لَکَ الحَمد)) بھی ملائے؟ 2۔ اس حالت میں منفرد (اکیلا) کیا کرے۔ دونوں کلمے جمع کرے یا نہ ؟ 3۔ کیا مأموم(مقتدی) صرف تحمید پر اِکتفا کرے یا ساتھ تسمیع بھی ملا سکتا ہے؟ جملہ سوالات کے جوابات بالترتیب پیشِ خدمت ہیں: 1....بظاہر حدیث (( اِذَا قَالَ الاِمَامُ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہٗ، فَقُولُوا رَبَّنَا لَکَ الحَمد)) [1] میں امام اور مقتدی کی تقسیم نظر آتی ہے۔ اسی بناء پر امام مالک اور امام ابو حنیفہ; تفریق و تقسیم کے قائل ہیں۔ یعنی امام صرف ’’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہٗ ‘‘ کہے اور مقتدی’’ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا لَکَ الحَمد‘‘۔ لیکن علمائے محققین اور ناقدینِ حدیث نے اس استدلال سے موافقت نہیں کی، بلکہ اس کو ناپسند فرمایا ہے۔ ان کا کہنا ہے: کہ حدیث ہذا میں تقسیم مقصود نہیں ہے، بلکہ یہاں تو صرف مقتدی کے لیے ’’تحمید‘‘ کے وقت کا تعین مقصود ہے۔ جیسا کہ ’’فائِ تعقیب‘‘ لفظ ’’فَقُولُوا‘‘ میں اس پر دال ہے ۔ حاصل یہ ہے، کہ جب امام ((سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہٗ‘)) کہہ کر فارغ ہو جائے، تو پھر مقتدی’’رَبَّنَا لَکَ الحَمد‘‘ کہے۔ اس حدیث میں امام کے اعتبار سے ’’تحمید‘‘ کا اثبات ہے اور نہ نفی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے استدلال ہذا کو محل نظر قرار دیا ہے ۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
Flag Counter