Maktaba Wahhabi

492 - 829
جو لوگ رکوع کی رکعت ہونے کے قائل ہیں وہ بخاری کی حدیث پیش کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ ایک دن دوڑ کر رکوع کرتے ہوئے صف میں جا ملے۔ بعد سلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ اﷲ تعالیٰ تیری حرص کو زیادہ کرے اور مت لوٹا، تو(یعنی نماز کو)۔‘‘ اس حدیث سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مدرک رکوع کو مدرک رکعت نہ جانتے تو پھر دوڑنے کی کیا ضرورت تھی۔ دوسری حدیث: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس وقت سجدہ کی حالت میں آکر ملو تو اس رکعت کو شمار نہ کرو اور جو کوئی رکوع میں آکر ملے اس نے نماز پائی۔ تیسری حدیث: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ (جس آدمی نے جمعہ کے دن دوسری رکعت کا رکوع پا لیا وہ ایک رکعت اور پڑھ لے۔[1] اس طرح اور حدیثیں لکھنے کے بعد لکھتے ہیں کہ جس طرح ظہر کی چار رکعت اس وقت تک فرض ہیں جب تک آدمی حضر میں ہو اور اگر سفر میں ہو تو دو رکعتوں کی فرضیت اٹھ جاتی ہے، اسی طرح فاتحہ اور قیام اس وقت تک فرض ہے جب تک امام رکوع میں نہ گیا ہو۔ جس وقت امام رکوع میں چلا گیا اس وقت یہ دونوں چیزیں فرض نہ رہیں۔ جو مدرکِ رکوع کو مدرکِ رکعت نہیں مانتے، ان کے پاس صرف اجتہاد ہے اور یہ کہ مندرجہ ذیل صحابہ، تابعی، تبع تابعی امام و صالحین اس کے قائل ہیں۔ مثلاً حضرت ابوبکر صدیق، حضرت ابوبکرہ، حضرت زید بن وہب، حضرت ابن مسعود،حضرت ابن عمر، حضرت ابوہریرہ، حضرت زید بن ثابت(رضی اللہ عنہم)، باقی نام و دلائل (مکتبہ ایوبیہ حدیث محل کراچی) کے شائع شدہ پمفلٹ ’’رکوع کی رکعت‘‘ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ براہ مہربانی اس کی وضاحت فرمائیں کیونکہ ہم تو ابھی تک یہی سنتے آئے ہیں کہ جس رکعت میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ رکعت نہیں ہوتی۔ جواب: رکوع کی رکعت کا مسئلہ مختلف فیہ مسائل میں سے ایک ہے۔ جمہور اہلِ علم اس بات کے قائل ہیں کہ ’’مدرکِ رکوع‘‘(رکوع پانے والا) ’’مدرک رکعت‘‘(رکعت پانے والا) ہے لیکن دوسری طرف محققین کی ایک جماعت کا موقف یہ ہے، کہ ’’مدرک رکوع‘‘ ’’مدرکِ رکعت‘‘ نہیں۔ جمہور کے دلائل میں سے وہ احادیث ہیں جن کی سائل نے نشاندہی کی ہے ۔یہاں ہم بالاختصار جمہور کے دلائل کا جائزہ پیش کرتے ہیں،
Flag Counter