Maktaba Wahhabi

472 - 829
حدیث ہذا دوام واستمرار رفع یدین کی واضح دلیل ہے۔ اس اضافہ پر بعض حنفیہ کا اعتراض ہے۔ یہ ٹکڑا تو ’’سنن کبری‘‘ بیہقی میں موجود نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’سنن کبریٰ‘‘ بیہقی کا حوالہ نہیں دیا بلکہ بیہقی کی طرف نسبت کی ہے۔ مختصر خلافیات بیہقی میں یہ الفاظ موجود ہیں، اس کتاب کا قلمی نسخہ ’’مکتبہ حرم مکی‘‘ میں محفوظ ہے۔ اس کا فوٹو میرے پاس موجود ہے۔ اس میں واضح طور پر یہ الفاظ تحریرہیں: البتہ بعض متعصب حنفیوں نے حضرت جابر بن سمرہ کی روایت: ((قَالَ خَرَجَ عَلَینَا رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فَقَالَ مَالِی أَرَاکُم رَافِعِی أَیدِیکُم، کَأَنَّھَا اَذنَابُ خَیلٍ شمسٍ؟ اُسکُنُوا فِی الصَّلٰوۃِ)) [1] ’’کہا، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے۔ فرمایا کہ کیا ہے میں تمہارے ہاتھوں کو اٹھے ہوئے دیکھتا ہوں گویا کہ وہ شریر گھوڑوں کی دُمیں ہیں۔‘‘ سے اس کو منسوخ قرار دینے کی ناکام سعی کی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کے جواب میں رقمطراز ہیں: اس میں رفع یدین کے مخصوص ہیئت پر مخصوص مقام میں منع ہونے کی دلیل نہیں۔اور وہ رکوع کو جاتے ہوئے اور رکوع سے اٹھتے وقت۔ اس لیے کہ یہ طویل حدیث بھی مسلم ہی میں حضرت جابربن سمرہ سے مروی ہے جس میں یہ ہے کہ صحابہ’’السّلام علیکم ورحمۃ اﷲ‘‘ کے وقت دائیں بائیں اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرتے تھے۔[2] صرف اس سے روکا گیا ہے۔ چند سطور بعد امام بخاری رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہیں جس نے جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بوقت ِ رکوع رفع یدین کے منع ہونے پر دلیل لی، اس کا علم سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ بات مشہور ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ یہ حالت تشہد کا واقعہ ہے ملاحظہ ہو! التلخیص(۱؍ ۲۲۱) صحیح مسلم کے حواشی پر امام نووی رحمہ اللہ نے بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے: ((بَابُ الأَمرِ بِالسَّکُونِ فِی الصَّلٰوۃِ وَالنَّھیِ عَنِ الاِشَارَۃِ بِالیَدِ وَ رَفعِھَا عِندَ السَّلَامِ …الخ)) حنفیوں نے اس کا جواب یوں دیا ہے کہأُسْکُنُوا فِی الصَّلٰوۃِ الفاظ عام ہیں اور اصولِ فقہ کا قاعدہ ہے: اَلعِبرَۃُ بِعُمُومِ اللَّفظِ لَا بِخُصُوصِ السَّبَبِ ۔یعنی اعتبار عمومی الفاظ کا ہوتا ہے نہ کہ خصُوصی سبب کا۔ بناء بریں یہ الفاظ اپنے عموم کے اعتبار سے ’’عندالرکوع‘‘ رفع یدین کو بھی شامل ہیں۔ حضرات اس کا
Flag Counter