Maktaba Wahhabi

450 - 829
لَعَلَّکُم تُرحَمُونَ﴾ (الاعراف:۲۰۴) کا بھی یہی معنی ہے۔ پانچویں وجہ جو حقیقت میں فتویٰ میں مذکور حضرت شیخ الکل میاں صاحب کے اصول( قول و فعل) کی صحیح تعبیر ہے۔ پیغمبر تمام افراد امت کے لیے دستور العمل ہوتا ہے، جب تک حدیث مرفوع میں ہی تخصیص ثابت نہ ہو۔ وہ یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع صرف اس معنی میں جمیع افراد امت کے لیے عام ہے۔ جب فرد کی حالت بھی وہی ہو، یعنی آپ نے اگر کوئی عمل قاری کی حیثیت سے کیا ہے، تو یہ امت کے سب قاریوں کے لیے ہو گا۔ علماء اصول نے عموماً فعل اور ’’العبرۃ بعموم اللفظ‘‘ (عموم لفظ کے معتبر ہونے) کی مباحث میں اس نکتہ کی وضاحت کی ہے۔ مثلاً قرآن کی آیت ﴿وَ اِذَا قُرِیَٔ القُراٰنُ﴾(الاعراف:۲۰۴) سے کوئی شخص یہ عمومی حکم نکالے کہ نماز سے باہر ایک شخص قرآن کی تلاوت کر رہا ہو، تو اس کے قریب دوسرے تلاوت کرنے والے سب خاموش ہو جائیں، تو یہ عموم غلط ہو گا۔ ہمارا خیال ہے کہ مدیراعلیٰ موصوف بھی اس حکم کو مقتدی اور عام سامع تک نہیں سمجھتے ہوں گے۔ اس روشنی میں ہماری ترجیحی رائے پر بھی غور فرمائیں، کہ ہماری احتیاط کتنا وزن رکھتی ہے۔ اب ہم دوسرے نکتہ پر توجہ دلانا مناسب سمجھتے ہیں۔ جماعت اہلِ حدیث پاک و ہند میں حضرت شیخ الکل اور حضرت الاستاذ محدث روپڑی وغیرہ بزرگوں کی مجاہدانہ سرگرمیوں کا ثمرہے۔ ان بزرگوں کی کتاب و سنت کے احیاء اور تقلید سے اجتناب کے لیے کامیاب تحریک کے امتیازات آہستہ آہستہ پسِ پشت ڈالے جا رہے ہیں۔ ان بزرگوں نے تو ’’مذاہب اربعہ‘‘ کے مذہبی تعصب سے نجات دلائی تھی۔ لیکن ہم لوگ ان کی تقلید کے درپے ہو کر پانچواں تقلیدی مذہب اختیار کر رہے ہیں۔اور آج کل زور اس بات پر دیا جاتا ہے، کہ ہم ان بزرگوں کے ہر جزوی مسئلہ کو بھی تسلیم کریں۔ حالانکہ اہلِ حدیث کا مسلک چند فروعی مسائل کی مخصوص تعبیر نہیں ہے۔ بلکہ اہلِ حدیث کتاب و سنت کی سلفی نہج پر فہم و تعبیر کا نام ہے۔ کسی مخصوص مسئلہ میں اہلِ حدیث کی دو یا زیادہ آراء سے مسلک اہلِ حدیث پر کوئی زَد نہیں پڑتی۔ اس لیے ہم نے بھی پیش آمدہ مسئلہ میں کوئی سخت رویہ اختیار نہیں کیا تھا۔ بلکہ استحباب کے دو پہلوؤں میں سے ایک کو اولیٰ قرار دیا تھا۔ یعنی قرآنی آیات کا جواب صرف استحبابی مسئلہ ہے۔ قاری کے جواب کے حق تک تو ہم بھی مستحب سمجھتے ہیں۔ لیکن سامع کے لیے ضعف احادیث کی وجہ سے جواب کو احتیاط کے منافی سمجھتے ہیں۔ بہت سے ائمہ نے اس حکم کو مزید محدود کیا ہے۔ بعض تو اس کے لیے صرف نفل نماز کی شرط لگاتے ہیں اور بعض صرف منفرد کے لیے جائز سمجھتے ہیں۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! المغنی لابن قدامہ جلد اوّل،ص:۵۵۰، سبل السلام جلد
Flag Counter