Maktaba Wahhabi

432 - 829
میں ’’سورہ بقرہ‘‘ کی ایک ایک آیت بھی پڑھی۔ اسی طرح ’’صحیح بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی دو رکعتوں میں ’’بقرہ‘‘ اور ’’ال عمران‘‘ سے دو آیتوں کی تلاوت کی﴿قُولُوا اٰمَنَّا بِاللّٰہِ…﴾(البقرۃ:۱۳۶) اور ﴿قُل یٰٓاَھلُ الکِتَابِ تَعَالُوا…﴾ (آل عمران:۶۴) [1] اصل یہ ہے کہ جو شے نفلوں میں جائز ہے۔ وہ فرضوں میں بھی جائز ہے، جب تک کوئی تخصیص نہ ہو ۔ لہٰذا اس عموم سے فرضوں کے لیے بھی استدلال ہو سکتا ہے اور قتادہ نے کہا، جو ایک سورت دو رکعتوں میں پڑھے یا ایک سورت کو بار بار دو رکعتوں میں پڑھے، سب اﷲ کی کتاب ہے۔ یعنی پڑھنے کا جواز ہے۔ سورۃ ’’الزلزال‘‘ کو آپ نے دو رکعتوں میں پڑھا اور موجودہ مصحف کی ترتیب کے خلاف بھی پڑھا جائے، تو جائز ہے۔ احنف نے پہلی رکعت میں الکہف اور دوسری میں یوسف یا یونس پڑھی اور انھوں نے یہ بھی ذکر کیا، کہ عمر رضی اللہ عنہ نے صبح کی نماز انہی سورتوں کیساتھ (اسی انداز میں) پڑھائی تھی۔ اورابن مسعود نے ’’انفال‘‘ سے چالیس آیتوں کی تلاوت کی اور دوسری رکعت میں مفصل کی ایک سورت پڑھی۔[2] ان دلائل سے معلوم ہوا، کہ افضل یہ ہے، کہ ہر رکعت میں پوری سورت پڑھی جائے اور بعض حصہ پڑھنے کا بھی جواز ہے۔قرآنی آیت ﴿فاَقرَؤُا مَا تَیَسَّرَ مِنَ القُراٰنِ ﴾(المزمل:۲۰) کا عموم بھی اسی بات کا متقاضی ہے۔ نیز مختلف اوقات میں جو متعین سورتوں کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاوت فرمائی ہے۔ مثلاً جمعہ کے روز فجر کی نماز میں (سورۃ السجدہ) اور (سورۃ الدھر) اور جمعہ و عیدین میں (سورۃ الاعلیٰ) اور (سورۃ الغاشیۃ) کی تلاوت آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے۔ یا عیدین میں (قٓ) اور (اقتربت الساعۃ) بھی پڑھتے ۔یہاں سنت تب ادا ہوگی، جب ان سورتوں کو مکمل پڑھا جائے، اور کچھ حصہ پڑھنے سے سابقہ دلائل کی بناء پر نماز تو ہو جائے گی۔لیکن ایسا امام قرأت مسنونہ کے اجر وثواب سے محروم ہے۔
Flag Counter