Maktaba Wahhabi

431 - 829
امام جماعت بالالتزام وہی سورتیں نمازکی رکعتوں میں پڑھتا ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی ہیں مگر پوری سورتیں نہیں پڑھتا کبھی آدھی سورت کبھی آخری تین چار آیتیں پڑھ کر رکوع میں چلا جاتا ہے اور ایسا کبھی کبھار نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ یوں ہی ہوتا ہے کیا ایسا امام مندرجہ بالا حقیقت ِ احوال کے پس منظر میں ’’ مسخ ِ سنت‘‘ کے گناہ کا مرتکب نہیں ہوتا؟اگر ہوتا ہے تو کیوں اور نہیں ہوتا تو کیوں یعنی ہر دو صورت میں دلائل بھی درکار ہیں۔ جواب: بلاریب قرأتِ مسنون تبھی بنے گی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کے مطابق ہو گی۔ قرآن میں ہے: ﴿لَقَد کَانَ لَکُم فِی رَسُولِ اللّٰہِ اُسوَۃٌ حَسَنَۃٌ﴾(الاحزاب:۲۱)عام حالات میں ہر رکعت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پوری پوری سورتیں پڑھتے تھے۔ حدیث میں ہے((لِکُلِّ رَکعَۃٍ سُورَۃ )) [1] یعنی ہر رکعت میں مکمل سورت پڑھو۔ لیکن یہ امر مندوب ہے ۔ واجب نہیں، کیونکہ بعض دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک رکعت میں دو یا دو سے زیادہ سورتیں جمع کر لیتے تھے، جس طرح کہ نظائر کو جمع کرنے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ مبارک تھی۔ سورۃ ’’الرحمن‘‘ اور ’’النجم‘‘ کو ایک رکعت میں اور ’’اقتربت‘‘ اور ’’الحاقۃ‘‘ ایک میں… الخ اور بعض دفعہ صرف فاتحہ پر اکتفاء کی۔ مزید سورت کو نہیں ملایا۔[2] اور ایک صحابی ﴿قُل ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ﴾ کو ہر رکعت میں پڑھ کر، اس کے ساتھ سورت ملاتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی پسند فرمایا۔[3] عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، اُس نے نقل کی اپنے باپ سے، اُس نے نقل کی اپنے دادا سے کہا اُس نے نہیں مفصل سے کوئی سورت چھوٹی اور نہ بڑی، مگر کہ میں نے سنی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے ، کہ امامت کرتے تھے۔ اس کے ساتھ (رواہ مالک) اور سورت کا بعض حصہ پڑھنے کا بھی جواز ہے، جس طرح صحیح مسلم میں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز میں ’’المومنون‘‘ شروع کی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم موسیٰ اور ہارون یا عیسیٰi کے ذکر پر پہنچے، تو کھانسی نے آلیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہیں رکوع کردیا، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صبح کی پہلی رکعت میں ایک سو بیس آیات تلاوت کیں اور دوسری رکعت میں ’’مثانی‘‘ سورتوں سے ایک سورت پڑھی۔[4] اور ’’دارقطنی‘‘ میں بسند قوی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے وارد ہے۔ انھوں نے ’’سورہ فاتحہ‘‘ پڑھی اور ہر رکعت
Flag Counter