Maktaba Wahhabi

268 - 829
بعض علماء نے اس کی شرعی اصل یہ بھی قرار دی ہے کہ حضرت عثمان نے اس اذان کو دیگر نمازوں کی اذان پر قیاس کیا تھا۔ جیسے تمام نمازوں کی اذان نماز کھڑی ہونے سے کچھ دیر پہلے ہوتی ہے۔ اسی طرح جمعہ کا خطبہ، جو نماز کے قائم مقام ہے ، اس سے کچھ قبل اذان مناسب سمجھی۔ لہٰذا انھوں نے عام نمازوں کی اذان پر قیاس کرکے اس کے شرعی ہونے کی دلیل پیش کی ہے۔ بہر صورت وجہ کچھ بھی ہو، اس کے لیے شرعی دلیل موجود ہے۔ اس لیے یہ اذان مشروع ہے۔ ملاحظہ ہو: فتح الباری:۲؍۳۹۴۔ ۲۔ جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ عثمانی اذان شرعی دلیل کی بنیاد پر ہی شروع کی گئی تھی۔ چنانچہ اس اذان کا مقام ’’زوراء‘‘ پر مسجد سے دُور ہونا کوئی شرعی حیثیت نہیں رکھتا۔ اذان کا اصل مقصد اطلاع دینا ہوتا ہے جہاں سے اطلاع کا اصل مقصد پورا ہوسکے وہی مقام اس کے لیے موزوں ہوتا ہے۔ خود مولانا عبید اﷲ عفیف صاحب اپنے مضمون کی تیسری قسط ’’ تیسیرالعلّام‘‘ کے حوالے سے ایسی توجیہ پیش کر چکے ہیں، جو حدیث أبوداؤد سے بھی ثابت ہے، کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ صبح کی اذان مسجد سے باہر ’’بنی نجار‘‘ کی ایک عورت کے مکان پر دیا کرتے تھے۔ جو نسبتاً بلند تھا۔ چونکہ ’’زوراء‘‘ مدینہ کی اس وقت کی مارکیٹ میں تھا۔ اس لیے کاروبار میں مصروف لوگوں کو تیاری کے لیے اطلاع دینے کی ضرورت بھی، وہاں زیادہ تھی جس سے بازار کے قریب آبادی کو بھی اطلاع مل جاتی تھی۔ لہٰذا اس بات کی کوئی زیادہ اہمیت نہیں کہ مقامِ ’’زوراء‘‘ مسجدِ نبوی سے کتنے فاصلے پر تھا؟ مولانا موصوف نے مدینہ منورہ کے مشہور قاضی شیخ عَطِیَّہ محمد سالم کے حوالے سے اس کا مقام متعین کرنے کی جو کوشش کی ہے، اس کا اصل مسئلے سے خاص تعلق نہیں۔ میں نے آج سے قریباً بیس سال قبل یہ جگہ دیکھی تھی جو ’’باب المصری‘‘ کے دائیں جانب بازار سے بجانب مغرب تھی۔ اس وقت وہاں ’’مسجدِ فاطمہ‘‘ موجود تھی، جس سے چند گز دُور مالک بن سنان صحابی کا مدفن بھی تھا۔ شیخ عطیہ مسجدِ فاطمہ رضی اللہ عنہ نزد قبر مالک بن سنان کو مقامِ ’’زوراء‘‘ بتاتے ہیں۔ آج کل یہ دونوں جگہیں مسجد نبوی کی توسیع میں شامل ہو چکی ہیں۔ شیخ موصوف میرے مدینہ منورہ میں حصولِ تعلیم کے دوران محترم اساتذہ میں سے تھے۔ وہ خود بھی عثمانی اذان کی مشروعیت کے قائل ہیں۔ اس کا ذکر انھوں نے اپنے استاد شیخ محمد امین شنقیطی (جن کے تلمذ کا مجھے بھی شرف حاصل ہے) کی تفسیر ’’ أضواء البیان‘‘ کی تکمیل کرتے ہوئے اس کی آٹھویں جلد صفحہ:۲۶۶، میں صراحتاً کیا ہے۔ میں اپنے فتوے میں اپنے استاد مکرم حافظ عبد اﷲ محدث روپڑی رحمہ اللہ کے حوالے سے بھی تائید پیش کر چکا ہوں، کہ اذان سے مقصد بذریعہ توحیدی کلمات اعلان ہی ہے۔ اس میں بازار یا دوسری جگہ
Flag Counter