Maktaba Wahhabi

267 - 829
اذان، جس پر عمل دورِ صحابہ سے آج تک شائع اور ذائع ہے ، ان مسائل سے نہیں جنھیں بدعت قرار دے کر ختم کرنے کی ضرورت ہو، بلکہ اس کے بالمقابل جو قصبوں، دیہاتوں اور شہروں میں جگہ جگہ جمعوں کے تعدّد کو بنیاد بنا کر یہ کہا جاتا ہے کہ ایسی صورت میں پہلی اذان کی ضرورت ہی نہیں رہتی، وہ محلِّ نظر ہے۔ کیونکہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جمعہ کیلیے مسجدوں کی یہ بھرمار نہ تھی بلکہ جمعہ مسجد نبوی میں ہی ہوتا تھا۔ آج اس سنت کے إحیاء کی زیادہ ضرورت ہے تاکہ لاؤڈ اسپیکروں کی آوازوں کا باہمی ٹکراؤ اور شور کم ہو کر مسلمانوں کی اجتماعیت مستحکم ہو۔ اس ابتدائی بات کے بعد اصل مسئلے کی وضاحت کے لیے ہم چند نکات پیش کرتے ہیں: ۱۔ کیا جمعہ کی پہلی اذان شرعی ضرورت تھی یا انتظامی تدبیر؟ ۲۔ کیا مقامِ ’’زوراء‘‘ پر اس اذان کا ہونا غیر شرعی ہونے کی بناء پر تھا؟ ۳۔ یہ اذان کیوں عام ہوئی؟ نیز کیا اس کی ضرورت ختم ہو چکی ہے؟ ۴۔ خلفائے راشدین کی سنت کا سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تعلق ہے؟ ۵۔ بعض ائمہ کااس کو بدعت کہنا کیا مفہوم رکھتا ہے؟ ۱۔ جمعہ کی پہلی اذان ختم کرنے والوں کی بنیادی غلطی یہ ہے، کہ وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی جمعہ کے لیے پہلی اذان کے اضافے کی اصل وجہ کا تعین ٹھیک طور سے نہیں کرسکے۔ اسی لیے وہ اسے کبھی انتظامی تدبیر قرار دیتے ہیں، اور کبھی مقامی اور ہنگامی ضرورت۔ حالانکہ یہ کوئی ہنگامی یا مقامی مسئلہ نہیں تھا، بلکہ شرع میں اس کی مثال پہلے بھی موجود تھی۔ وہی اس کے مُطلق جواز کی دلیل ہے۔ مثلاً رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز کے لیے نیند سے بیداری کے بعد تیاری کی ضرورت محسوس کی تو صبح کی اصل اذان سے قبل ایک اذان کا اضافہ کردیا، جو حضرت بلال رضی اللہ عنہ دیا کرتے تھے۔[1] اسی طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جب لوگوں کی آبادی بڑھ جانے کی بناء پر یہ ضرورت محسوس کی کہ جمعہ کی اصل اذان سے قبل تیاری کے لیے ایک مزید اذان کی ضرورت ہے تو انھوں نے پہلی اذان کا اضافہ کردیا۔ جس سے بڑا مقصد یہی تھا کہ نمازی خطبہ شروع ہونے سے قبل جمعہ کی مبارک گھڑیوں کا ثواب حاصل کر سکیں، جن کی صراحت صحیح احادیث میں موجود ہے۔
Flag Counter