Maktaba Wahhabi

250 - 829
بسنے والوں کو خطبہ والی اذان سنائی نہ دیتی تھی۔ اس لیے بامر مجبوری ان لوگوں کو جمعہ کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے مقامِ ’’زوراء‘‘ پر آپ نے اس اذان کو رواج دیا۔ چونکہ اب یہ غرض موجود نہیں اس لیے ہم اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔‘‘ علامہ حافظ احمد محمد شاکر المصری رحمہ اللہ ارقام فرماتے ہیں: (( لِأَنَّ المَدِینَۃَ لَم یَکُن بِھَا إِلَّا المَسجِدَ النَّبِوِیّ، وَ کَانَ النَّاسُ کُلُّھُم یُجَمِّعُونَ فِیہِ، وَ کَثُرُوا عَن أَن یَسمَعُوا الأَذَانَ عِندَ بَابِ المَسجِدِ ۔ فَزَادَ عُثمَانُ الأَذَانَ الأَوَّلَ، لِیَعلَمَ مَن بِالسُّوقِ ، وَ مَن حَولَہٗ حُضُورَ الصَّلٰوۃ )) [1] ’’اذانِ عثمانی کا پس منظر یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں اس دور میں مسجدِ نبوی کے علاوہ اور کوئی مسجد جمعہ نہ تھی، اور تمام لوگ اسی میں جمعہ پڑھتے تھے ، اور وہ اتنی زیادہ تعداد میں تھے کہ جمعہ کے خطبہ کے آغاز میں مسجد کے دروازے پر پڑھی جانے والی اذان سن نہ سکتے تھے۔ لہٰذا امیر المومنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مروّجہ پہلی اذان اس لیے کہلوانی پڑی، تاکہ بازار میں اور اس کے گردو نواح میں بسنے والوں کو جمعہ کے وقت کا علم ہو سکے۔ اور ’’فتح الباری‘‘(۲؍۳۲۷) میں بھی یہی وجہ مرقوم ہے۔ محدَّث عصر حاضر علامہ البانی حفظہ اللہ رقمطراز ہیں: ((لَا نَرَی الاِقتِدَائَ بِمَا فَعَلَہُ عُثمَانُ عَلَی الإِطلَاقِ ، وَ دُونَ قَیدٍ ۔ فَقَد عَلِمنَا مِمَّا تَقَدَّمَ أَنَّہٗ إِنَّمَا زَادَ الأَذَانَ الأَوَّلَ لِعِلَّۃٍ مَعقُولَۃٍ ، وَ ھِیَ کَثرَۃُ النَّاسِ وَ تَبَاعُدُ مَنَازِلِھِم عَنِ المَسجِدِ النَّبَوِیِّ فَمَن صَرَفَ النَّظرَ عَن ھٰذِہِ العِلَّۃِ، وَ تَمَسَّکَ بِأَذَانِ عُثمَانَ مُطلَقًا، لَا یَکُونُ مُقتَدِیًا بِہٖ رَضِیَ اللّٰہُ عَنہُ ، بَل ھُوَ مُخَالِفٌ لَہٗ ، حَیثُ لَم یَنظُر بِعَینِ الإِعتِبَارِ اِلٰی تِلکَ العِلَّۃِ الَّتِی لَو لَاھَا لَمَا کَانَ لِعُثمَانَ أَن یَزِیدَ عَلٰی سُنَّتِہٖ عَلَیہِ السَّلَام وَ سُنَّۃِ الخَلِیفَتَینِ مِن بَعدِہٖ)) [2] ’’ہمارے نزدیک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا یہ عمل(اذان عثمانی) علی الإطلاق پیروی کے قابل نہیں جب تک وہ معقول علَّت اور سبب موجود نہ ہو جس کی وجہ سے انھوں نے اس اذان کو رواج دیا اور وہ علَّت اور سبب یہ تھا کہ مدینہ منورہ کی آبادی کا ان کے عہد میں بہت بڑھ جانا اور مسجد نبوی
Flag Counter