Maktaba Wahhabi

249 - 829
((وَ بِھٰذَا تَرَجّحُ عِندِی، أَنَّ مَوضِعَ أَذَانِ عُثمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنہُ کَانَ بِذٰلِکَ المَکَانِ، وَ أَنَّہُ المُتَوَسِّطَ بِسُوقِ المَدِینَۃِ، وَ تُقَدَّرُ مُسَافَتُہٗ عَنِ المَسجِدِ النَّبَوِیِّ بِحَوَالَی مِأَتَینِ وَ خَمسِینَ مِترًا تَقرِیبًا)) [1] اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ مقام ’’زوراء‘‘ مسجد نبوی سے تقریباً اڑھائی صد میٹر دُور تھا اور اتنے فاصلے پر کہی جانے والی اذان کو شرعی یعنی مسنون اذان قرار دینا کچھ مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ (فافہم) ثالثًا: اس لیے بھی کہ چونکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں مدینہ معظمہ کی آبادی میں خاطر خواہ اضافہ ہو گیا، اور دُور دُور تک محلے آباد ہو گئے تھے اور خطبہ جمعہ والی اذان مسجدِ نبوی سے دور محلہ جات میں سنائی نہیں دیتی تھی اور آتے آتے نمازِ جمعہ ختم ہو جاتی تھی۔ لہٰذا لوگوں کی اس مجبوری کے پیشِ نظر خلیفہ راشد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اجتہاد کرکے اس پہلی اذان کی طَرح ڈالی تھی۔ یعنی بالفاظِ دیگر اذانِ عثمانی ایک مقامی ضرورت سے عہدہ برآ ہونے کے لیے شروع کی گئی تھی۔ جیسا کہ مذکورۃ الصدر حدیث کے الفاظ ((فَلمَّا کَثُرَ النَّاسُ وَ تَبَاعَدَتِ المَنَازِلُ)) اس مقامی ضرورت پر دلالت کر رہے ہیں۔ شارحینِ حدیث نے بھی اس ضرورت کی نشاندہی کی ہے۔ علامہ الشیخ محمود محمد خطاب رقم فرماتے ہیں: ((فَإِنَّ الغَرَضَ الَّذِی زَادَ عُثمَانُ الأَذَانَ لِأَجلِہٖ ، وَ ھُوَ ، أَنَّہٗ لَمَّا کَثُرَ النَّاسُ وَانتَشَرَتِ المَنَازِلُ، کَانَ مَن عِندَ الزّورَائِ ، لَا یَسمَعُ الأَذَانَ الَّذِی عِندَ المَسجِدِ، زَادَ أَذَانًا ثَانِیًا (خَارِجَ المَسجِدِ) عَلَی ’ الزَّورَائِ‘ لإِسمَاعِھِم، فَاِذَا اجتَمَعَ النَّاسُ فِی المَسجِدِ، وَ جَلَسَ الخَطِیبُ عَلَی المِنبَرِ، أَذَّنَ المُؤَذِّنُ ثَانِیًا خَارِجَ المَسجِدِ عَلَی البَابِ، أَوعَلَی السَّطحِ ، کَمَا کَانَ فِی زَمَنِ النَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، وَ أَبِی بَکرٍ، وَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ۔ وَھٰذَا الغَرَضُ الَّذِی اَحدَثَ الأَذَانَ الثَّانِی مِن أَجلِہٖ فِی زَمَنِ عُثمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ لَیسَ مَوجُودًا فِی زَمَانِنَا۔ فَاِنَّنَا لَم نَرَی أَذَانًا یُفعَلُ بَعِیدًا عَنِ المَسجِدِ)) [2] یعنی جس غرض کے لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ مرُوّجہ پہلی اذان کہلوانی شروع کی تھی۔ وہ یہ تھی کہ ان کے عہدِ خلافت میں مدینہ منورہ کی آبادی میں خاصا اضافہ ہو گیا تھا اور رہائشی مکانات دُور دُور تک پھیل گئے تھے اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہونے کی وجہ سے مقامِ ’’زوراء‘‘ سے پرے
Flag Counter