Maktaba Wahhabi

91 - 829
(یعنی استحاضہ عادت بن چکا ہے، خونوں میں امتیاز کے قابل ہو یا نہ ہو۔) یہ عورت ایام حیض میں اپنی عادت کی طرف رجوع کرے، حدیث میں ہے: (( اُمکُثِی قَدرَ مَا کَانَت تَحبِسُکِ )) [1] ۲۔ مبتدأۃ ممیزہ‘‘ جو ابتداء سے خون میں امتیاز کر سکے۔ یہ تمیزپر عمل کرے، حدیث میں ہے: (( اِذَا کَانَ دَمُ الحَیضَۃِ فَإِنَّہٗ أَسوَدُ )) [2] یعنی ’’خون کے رنگ کو دیکھ کر فیصلہ کرے کونسا خون ہے؟ ۳۔ عادت اور تمیز دونوں مفقود ہوں اس کے ایامِ حیض چھ یا سات دن ہیں۔ جس طرح حضرت حمنہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے۔(العون:۱؍۱۱۷) اور نفاس اس خون کو کہا جاتا ہے جو ولادت کے وقت آتا ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ اس کی اکثر مدت چالیس دن ہے اور اس سے قبل جب بھی طہارت حاصل ہو، عورت غسل کے بعد نماز شروع کردے۔ اس بارے میں وارد روایت کو علامہ البانی نے ’’ارواء الغلیل‘‘ میں حَسن قرار دیا۔(۱؍۲۲۶) اور صاحب ’’سبل السلام‘‘ فرماتے ہیں:((فَھٰذِہِ الأَحَادِیثُ یَعضُدُ بَعضُھَا بَعضًا )) (۱؍۱۰۵) ’’یہ تمام احادیث ایک دوسری کو تقویت دیتی ہیں۔‘‘ نیز امام ترمذی رحمہ اللہ اپنی جامع میں فرماتے ہیں: (( وَ قَد أَجمَعَ أَھلُ العِلمِ مِن أَصحَابِ النَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وَالتَّابِعِینَ، وَ مَن بَعدِھَم، عَلٰی أَنَّ النُّفَسَائَ تَدَعُ الصَّلٰوۃَ أَربَعِینَ یَومًا إِلَّا أَن تَرَی الطُّھرَ قَبلَ ذٰلِکَ، فَإِنَّھَا تَغتَسِلُ وَ تُصَلِّی۔ فَإِذَا رَأَتِ الدَمَ بَعدَ الأَربَعِینَ۔ فَإِنَّ أَکثَرَ أَھلِ العِلمِ قَالُوا: لَا تَدَعُ الصَّلٰوۃَ بَعدَ الأَربَعِینَ۔ وَ ھُوَ قَولُ أَکثِر الفُقَھَائِ)) (عون المعبود :1؍123) صحابہ ، تابعین اور ان کے بعد کے اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ نفاس والی عورت چالیس دن تک نماز چھوڑے رکھے، اِلَّایہ کہ اس سے پہلے ہی اسے طہر(پاکی)نظر آجائے۔ چنانچہ (ایسی صورت میں) وہ غسل کرے گی اور نماز پڑھے گی۔ البتہ اگر چالیس دن کے بعد بھی اسے خون نظر آتا رہے تو پھر چالیس دن کے بعد وہ نماز نہیں چھوڑے گی اور یہی اکثر فقہاء کا مذہب ہے۔‘‘
Flag Counter