Maktaba Wahhabi

759 - 829
بعد میں پیدا ہو، اور آیت کا نزول پہلے ہو چکا ہو؟ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: درست بات یہ ہے، کہ اس آیت کی شان نزول، وہ لوگ ہیں جن پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’قصۂ احد‘‘ کے سبب بد دعا کی تھی۔ [1] اصل بات یہ ہے، کہ اس حدیث میں ’’ادراج‘‘ ہے، یعنی ’’حتّٰی أنزل اللّٰہ‘‘ کے الفاظ زُہری کی روایت میں ’’عَمَّن بَلَغَہ‘‘ (یعنی جس سے ان کو یہ روایت پہنچی ہے) ’’منقطع‘‘ ہے، امام مسلم نے یونس کی روایت میں اس بات کی تصریح کی ہے، زہری کا یہ کہنا، کہ ’’ہمیں یہ بات پہنچی ہے، کہ جب یہ آیت نازل ہوئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’قنوت‘‘ پڑھنا ترک کر دی۔‘‘ یہ بلاغ درست نہیں۔وجہ وہی ہے، جو پہلے گزر چکی ہے۔ ملاحظہ ہو! فتح الباری: ۸؍۲۸۶۔ ان دلائل سے معلوم ہوا، کہ بوقت ِِ ضرورت نمازوں میں ’’قنوتِ نازلہ‘‘ پڑھی جا سکتی ہے۔ ممانعت کی کوئی دلیل نہیں۔ وضاحت:مطلب یہ ہے، کہ جب ’’غزوۂ اُحد‘‘ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سَرمبارک زخمی ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’قنوت‘‘ نہیں کی تھی، بلکہ یہ فرمایا: کہ (( کَیفَ یُفلِحُ قَومٌ شَجُّوا رَأَسَ نَبِیِّہِم)) [2] یعنی ’’وہ قوم کبھی فلاح نہیں پا سکے گی، جس نے اپنے پیغمبر کا سر زخمی کیا۔ ‘‘ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا : ﴿ لَیسَ لَکَ مِنَ الأَمرِ شَیئٌ أَو یَتُوبَ عَلَیھِم﴾ (آل عمران:۱۲۸) کہ معاملات کا اختیار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں۔ اللہ چاہے تو اُن کی توبہ بھی قبول کر سکتا ہے۔ یعنی جب اس موقعے پر آپ نے قنوت کی ہی نہیں، تو منع کرنے کا کیا مطلب؟ آپ نے تو قنوت کا آغاز ہی بعد میں، یعنی سن چار ہجری میں کیا۔
Flag Counter