Maktaba Wahhabi

709 - 829
نمازوں میں شامل کر لیے جائیں تو تیرہ رکعات کی حکمت بھی حاصل ہو جاتی ہے ۔[1] اگر کوئی کہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ان کی ایک دوسری روایت کے خلاف ہے جو یوں ہے : (( إنَّہ کَانَ ( صلی اللّٰہ علیہ وسلم ) إذَا دَخْلَ الَْعشْرُ الْاوَاخِرُ یَجْتَھِدُ مَا لَا یَجْتَھِدُ فِیْ غَیْرِہ)) [2] ’’رمضان المبارک کا جب آخری دھاکا آتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عبادت میں اتنی محنت کرتے جو اس سے دوسرے دنوں میں نہ ہوتی۔‘‘ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نفل نوافل بہت پڑھتے تھے۔ اس کے جواب میں صاحب مرعاۃ المفاتیح مولانا رحمانی فرماتے ہیں: (( قُلْتُ:اَلْمُرادُ بِالْاِجْتِھَادِ تَطْوِیْلُ الرَّکَعَاتِ لَا الزِّیَادَۃُ فِیْ الْعَدَدِ )) یعنی ’’محنت سے مراد رکعات کا لمبا کرنا ہے نہ کہ عدد میں زیادتی۔‘‘ اور علامہ عینی رحمہ اللہ حنفی فرماتے ہیں: (( إنَّ الزِّیَادَۃَ فِیْ الْعَشْرِ الْاوَاخِرِ یُحْمَلُ عَلٰی التَّطْوِیْلِ دُوْنَ الزِّیَادَۃِ فِیْ الْعَدَدِ )) ’’آخری عشرہ میں زیادتی (محنت) کو رکعات کے لمبا کرنے پر محمول کیا جائے گا نہ کہ زیادتی عدد پر۔‘‘ حدیث ۲۔ معجم الصغیر اور قیام اللیل مروزی [3] میں حضرت جابر بن عبد اللہ سے مروی ہے۔ ((قَالَ صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فِیْ شَھْرِ رَمَضَانَ ثَمَان رَکَعَاتٍ )) جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ماہِ رمضان میں ہمیں آٹھ رکعت تراویح پڑھائیں۔ امام ذہبی اس حدیث کو میزان الاعتدال،ج:۲،ص:۳۱۱ میں عیسی بن جاریہ مدنی راوی حدیث کے ترجمہ (بیان احوال) میں ذکر فرماتے ہیں: اسنادہ وسط یعنی اس حدیث کی سند درمیانہ درجہ کی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں اس حدیث کو بیان کر کے اس کی سند پر کوئی جرح نہیں کی۔ گویا مقدمہ فتح الباری (ہدی الساری) میں ذکر کردہ شرط کی بناء پر حافظ صاحب کے نزدیک اس کی سند صحیح یا کم از کم حسن درجہ کی ہے۔ ایسے ہی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث پر تلخیص الجیر فی تخریج احادیث الرافعی الکبیر (فقہ شافعی) میں سکوت کیا ہے۔ اور علامہ عینی حنفی بھی عمدۃ القاری شرح بخاری میں اس حدیث کو لائے ہیں اور ابن خزیمہ اور ابن حبان
Flag Counter