Maktaba Wahhabi

699 - 829
ہے۔ اسی بنا پر امام ابن حجر رحمہ اللہ نے بلوغ المرام میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی گیارہ رکعت والی روایت ((صلٰوۃُ التَّطَوُّعِ)) کے عنوان کے تحت نقل کی ہے ، جب کہ امیر المومنین فی الحدیث، امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے ((کِتَابُ التَّہَجُّد)) میں ذکر کیا ہے اور بایں الفاظ باب منعقد کیا ہے: ((بَابُ قِیَامِ النَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بِاللَّیْلِ فِیْ رَمَضَانَ وَغَیْرِہٖ)) (۱؍۱۵۴) واضح ہو کہ تراویح ، تہجد، قیام اللیل، صلوٰۃ اللیل چاروں ایک ہی نماز کے مختلف نام ہیں۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: انوارِ مصابیح،ص:۹۰۔اگرچہ ماہِ رمضان میں تراویح کی جماعت کا اہتمام خاص ہے جو عام حالات سے استثنائی شکل ہے، تاہم مذکورہ بالا دلائل سے نوافل کی باجماعت مشروعیت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی جماعت کو صرف فرضیت کے ڈر سے تر ک کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:((انِّیْ خَشِیْتُ اَنْ یُّکْتَبَ عَلَیْکُمْ)) [1]’’یعنی مجھے خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں یہ نماز تم لوگوں پر فرض نہ ہو جائے۔‘‘ [2] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال سے چونکہ وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا اور فرضیت کا متوقع خدشہ زائل ہو گیا۔ لہٰذا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اسی مسنون کام کو نئے سرے سے دوبارہ شروع کردیا۔ اس پر بدعت کا اطلاق صرف لغوی اعتبار سے ہے۔ اصطلاحی اعتبار سے نہیں! پھر یہ بات بھی مسلّم ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چند راتوں میں وتر کے علاوہ آٹھ رکعات پڑھائی تھیں۔ اسی بناء پر اہل علم کا کہنا ہے کہ مسنون رکعات صرف آٹھ ہیں۔ ۲۔ باقی رہا یہ مسئلہ کہ اگر کوئی آٹھ سے زائد پڑھنا چاہے تو اس کا کیا حکم ہے؟ تو اس سلسلہ میں اہل علم کے مشہور دو قول ہیں:(۱)آٹھ سے زیادہ مطلقاً ناجائز۔ (۲) آٹھ رکعت سے زائد عام نوافل کی حیثیت میں جائز ہیں، کوئی حرج نہیں۔ جو لوگ مطلقاً آٹھ رکعات سے زائد کے ناجائز ہونے کے قائل ہیں۔ ان کا استدلال حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ان الفاظ سے ہے: ((مَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یَزِیْدُ فِیْ رَمَضَانَ وَ لَا فِیْ غَیْرِہٖ عَلٰی اِحْدٰی عَشَرَۃَ رَکْعَۃً)) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاہے رمضان کا مہینہ ہو یا
Flag Counter