Maktaba Wahhabi

679 - 829
وَإِنَّمَا اُمِرََ بِالخِمَارِ فَقَط مَعَ القَمِیصِ، فَکُنَّ یُصَلِّینَ فِی قَمِیصِھِنَّ، وَ خُمُرِھِنَّ ، وَاَمَّا الثَّوبُ الَّذِی کَانَتِ المَرأَۃُ تُرخِیہِ ، وَ سَأَلنَ عَن ذٰلِکَ النَّبِیَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فَقَالَ: ’شِبرًا، فَقُلنَ إِذًا تَبدُو اَسوٰقُھُنَّ! فَقَالَ: ’ذِرَاعٌ لَا یَزِدنَ عَلَیہِ، وَ قَولُ عُمَرَ بنِ رَبِیعَۃَ۔ کُتِبَ القَتلُ وَالقِتَالُ عَلَینَا وَ عَلَی الغَانِیَاتِ جَرُّ الذّیُولِ یعنی اگر نماز میں ہاتھوں کا ڈھانپنا واجب ہوتا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی وضاحت فرما دیتے۔ یہی حکم قدموں کا ہے ، انھیں قمیض کے ساتھ محض دوپٹے کا حکم دیا گیا ہے۔ تو عورتیں اپنی قمیضوں اور دوپٹوں میں نماز پڑھا کرتی تھیں۔ جہاں تک اس کپڑے کا تعلق ہے، جسے عورت لٹکا کر رکھتی ہے اور اس کے متعلق صحابیات نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت بھی کیا تھا، کہ وہ کتنا کپڑا لٹکائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایک بالشت۔ عورتوں نے کہا، کہ اس صورت میں تو پنڈلیاں ظاہر ہوں گی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک کلائی کی مقدار( تک لٹکالیں) اوراس سے زیادہ نہ لٹکائیں۔ عمر بن ربیعہ کا شعر ہے کہ ’’ہم پر جنگ و جدال فرض کیا گیا ہے اورعورتوں پر دامن کا لٹکانا۔‘‘ یہ اس وقت حکم ہے، جب وہ گھروں سے باہر جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا، کہ عورت اگر گندی جگہ سے دامن گھسیٹ کر گزرے تو کیا حکم ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((ُطھِّرُہٗ مَا بَعدَہٗ)) [1] ’’صاف جگہ سے گزرنا اسے پاک کردیتا ہے۔‘‘ مگر گھر کی چار دیواری میں توعورتیں اس قسم کا لباس نہیں پہنتی تھیں، جس طرح بعد میں عورتوں نے پنڈلیاں ڈھانپنے کے لیے گھر سے باہر موزے پہننے شروع کردیے تھے، جب کہ گھروں میں وہ موزے نہیں پہنتی تھیں۔ اسی بناء پر انھوں نے کہا تھا، کہ اگر ایک بالشت دامن لٹکانے سے پنڈلیاں ظاہر ہوں تو؟ گویا ان کا مقصود پنڈلیوں کا ڈھانپنا تھا( نہ کہ قدموں کا)۔ کیونکہ کپڑا جب ٹخنوں سے اوپر ہو گا، تو پیدل چلتے وقت پنڈلی ظاہر ہو گی۔ روایت کیا گیا ہے :’ أَعرُوا النِّسَاء َ یَلزَمنَ الحِجَالَ[2] ’’ عورتوں کو برہنہ کرو تاکہ وہ گھروں میں ٹھہرنا لازم کرلیں۔‘‘ یعنی اگر اس کے پاس باہر جانے کے لیے مناسب لباس ہی نہیں ہوگا، تو وہ گھر میں
Flag Counter