Maktaba Wahhabi

627 - 829
’’حضرت عبد اﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ نماز سے فراغت سے پہلے ہی ہاتھ اٹھا کر دعا کر رہا تھا۔ فارغ ہونے کے بعد اُسے فرمایا: کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا فرماتے تھے۔‘‘ یہ حدیث بالکل صحیح اور قابلِ عمل ہے۔ (ص:۱۳۔۱۶) پر فرماتے ہیں: (علم قواعد) گرائمر میں لفظ’’حَتّٰی‘‘کا عمل یہ ہے، کہ اس لفظ سے پہلے جس طرح کسی چیز کی شدت سے نفی ہوگی(حتی) کے بعد اس طرح اس فعل کا اثبات ہو گا۔ اس کی مثال قرآن مجید میں ہے: ﴿ فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنْم بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ﴾ (البقرۃ:۲۳۰) یعنی تیسری طلاق کی صورت میں عورت کسی اور مرد سے نکاح کرنے سے پہلے اپنے خاوند پر حلال نہیں۔ مگر بعد میں حلال ہے۔ یعنی لفظ ’’حتی‘‘ سے پہلے جس عمل کی نفی ہو گی حتی کے بعد اس کا اثبات ہوگا۔ یہاں بھی فراغت نماز سے پہلے ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے، مگر فراغت کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ضرور اٹھاتے تھے… کا مفہوم ہے۔[1] (ص:۴۶) پر فرماتے ہیں: ((قَبلَ أَن یَّفرُغَ )) یعنی فراغت سے پہلے اس نے ہاتھ اٹھائے تھے جس سے تشہد میں ہاتھ اٹھاناسمجھ آرہا ہے۔ یہاں عبد اﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا انکار، قنوت میں ہاتھ اٹھانا نہیں۔ تشہد میں ہاتھ اٹھانے سے انکار ہے۔‘‘ (ص:۲۳۔۲۴) پر لکھا ہے: ’’عبد اﷲ بن نافع بن عمیاء کو مجہول قرار دے کر ہی اسے ضعیف کہا گیا ہے۔ مگر امام ابن حبان نے اس کی توثیق کی ہے۔ اصولِ حدیث کی رُو سے ابن حبان کی ثقاہت دوسروں کی ہلکی سی تنقید پر قابلِ ترجیح ہے۔ ان کا کہنا کہ ہمیں اس کا علم نہیں۔ یعنی مجہول ہے۔ ابن حبان کے علم کا مقابلہ نہیں کر سکتا، کیوں کہ جان کر ، معلوم کرکے ، با خبر ہو کر ہی وہ اسے ثقات میں شامل مان رہے ہیں۔ لہٰذا وہ ہلکا سا ضعف بھی ختم ہو گیا ہے۔‘‘ (ص:۷۲) پر لکھا ہے: ’’حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’’بلوغ المرام‘‘ میں مسلکِ محدثین کے ثبوت میں بہت سے مقامات پر ضعیف احادیث سے استدلال نہ کرتے۔‘‘ امام بخاری رحمہ اللہ اپنی مایہ ناز کتاب’’صحیح بخاری میں ضعیف احادیث کو’’ترجمۃ الباب‘‘میں تائید کے لیے پیش نہ کرتے۔ حق یہ ہے، کہ تمام ’’ائمۂ ہدیٰ‘‘ نے احادیثِ ضعاف کو معرضِ استدلال میں دلیل بنایا ہے۔ امام ابن قیم ’’اعلام الموقعین‘‘(۱؍۳۱)میں ائمہ
Flag Counter