Maktaba Wahhabi

609 - 829
ہے، کہ ضعف شدید نہ ہو، تاکہ جھوٹوں اور جھوٹ کے ساتھ متہم، اور جن سے روایت حدیث میں بڑی غلطیاں ہوئیں، سے احتراز ہوجائے اور دوسری یہ ہے کہ وہ حدیث ایک عام اصل کے تحت ہو، تاکہ جس حدیث کا کوئی اصل صحیح ثابت نہ ہو، اس سے بچا جا سکے۔ تیسری شرط یہ ہے، کہ اس حدیث پر عمل کرتے وقت اس کے سنت ہونے کا عقیدہ نہ ہو، کیونکہ اس طرح رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وہ بات منسوب ہو جائے گی، جو آپ نے نہیں فرمائی۔‘‘ ان شرائط کی علیحدہ علیحدہ تشریح بھی پیشِ خدمت ہے۔ پہلی شرط کا معنی یہ ہے، کہ ضعیف حدیث پر عمل کے لیے حدیث کی حالت کی واقفیت ضروری ہے، تاکہ شدید ضُعف سے بچا جا سکے۔ اس شرط کو پیشِ نظر رکھ کر غور فرمائیے، کہ ہمارے ہاں آج وہ لوگ کتنی تعداد میں ہیں، جو احادیث کی صحت کے معیار کو سامنے رکھ کر گفتگو کر سکیں۔ خصوصاً احوالِ رواۃ کے سلسلہ میں جب مختلف ائمہ کی طرف سے جرح و تعدیل کا اختلاف ہوتا ہے، تو اس میں ترجیح دینا کتنا مشکل امر ہے؟ کُجا یہ کہ راوی کی عدالت اور ضبط کی باریکیوں کو سامنے رکھ کر معیارِ حدیث کے متعلق کوئی پختہ رائے قائم کی جائے۔ ہم یہ نہیں کہتے، کہ یہ کام ناممکن ہے، لیکن یہ بات ماننی پڑے گی کہ اس معیار کا فیصلہ کرسکنے والے بہت کم لوگ ہوں گے۔ نتیجتاً ضعف ِ شدید اور ضعف ِ خفیف کا امتیاز مِٹ جائے گا اور بیشتر دفعہ ضعف ِ شدید نظر انداز کر دیا جائے گا۔ اور دوسری شرط کا معنی یہ ہے، کہ ضعیف حدیث میں مذکور مسئلہ کا اصل صحیح حدیث سے ثابت ہو، مثلاً کوئی عمل اصلاً تو صحیح حدیث سے مشروع ہے، لیکن اس پر ثواب کا ذکر ضعیف حدیث میں آیا ہو۔ غور فرمائیے! کہ بات عمل کی ہو رہی تھی اور عمل صحیح حدیث سے مشروع ہے۔ حالانکہ ثواب کا تعلق انسان سے نہیں، وہ اﷲ کے ہاتھ میں ہے۔ ضعیف احادیث پر عمل سے کیا فرق پڑا؟ اصل عمل تو صحیح حدیث پر ہے ضعیف پر نہیں۔ تیسری شرط پر عمل کا مطلب یہ ہے، کہ ضعف ِ خفیف کے باوجود اس مسئلہ پر عمل کرتے وقت اس کے شرعی ہونے کا عقیدہ نہ رکھے، کیونکہ شرع کے ثبوت کے لیے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل صحیح اور ثبوت ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ بالا شرائط سے نتیجہ یہ نکلتا ہے، کہ صحیح حدیث کے علاوہ ضعیف پر عمل جائز نہیں۔ مسئلہ ہذا پر سیر حاصل بحث کے لیے ملاحظہ ہو! ماہنامہ محدث لاہور جلد۹عدد:۱۔۲، میں شائع شدہ ہمارا تفصیلی فتویٰ ’’بعض آیاتِ قرآنی کا جواب‘‘ (ص:۳ تا۲۳) اس فتویٰ کا امتیازی پہلو یہ ہے، کہ یہ اہلِ علم کی مختلف تحریروں اور نظریات کے علاوہ نقد و تبصرہ سے مزین ہے۔ لاحق اور وارد شکوک و شبہات کا علمی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
Flag Counter