Maktaba Wahhabi

599 - 829
میں شمار کیاہے۔‘‘ دوسری بات یہ ہے، کہ اس حدیث میں اجتماعی دعا کا ذکر نہیں۔ زیادہ سے زیادہ اس سے انفرادی دعا پر استدلال ہو سکتاہے۔ فتاوی اہلحدیث اور فتاوی نذیریہ میں ذکر کردہ دلائل محل نظر ہیں۔ مثلاً فتاوی نذیریہ اور فتاوی اہلحدیث میں بحوالہ ابن ابی شیبہ روایت ہے، کہ سیدنا عامر کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فجر کی نماز پڑھی جب آپ نے سلام پھیرا تو قبلہ کی طرف سے منہ پھیر کر (مقتدیوں کی طرف متوجہ ہوئے) ((رَفَعَ یَدَیہِ، وَ دَعَا)) ’’دونوں ہاتھ اٹھاکر دعا مانگی۔‘‘ علامہ عبید اللہ رحمانی رحمہ اللہ حدیث ہذا پر طویل بحث کے بعد فرماتے ہیں: ’’مذکورہ تفصیل سے واضح ہوگیا، کہ مختصر اور مُطَوَّل دونوں میں سے کسی روایت میں بھی ((وَرَفَعَ یَدَیہِ، وَدَعَا)) کی زیاتی موجود نہیں‘‘ ویسے بھی یہ روایت عامر سے نہیں، بلکہ یزید بن ابی مسعود عامری سے مروی ہے اور باقی دلائل بھی ضعف کی بناء پر لائقِ استدلال نہیں۔ ان کا ضعف فتاوی اہلحدیث میں بھی ملاحظہ کیا جا سکتاہے، (۲؍۱۹۳۔۱۹۳) راجح بات یہ ہے، کہ فضائل واعمال میں ضعیف حدیث ناقابلِ اعتبار ہے۔ ’’محدث ‘‘ کے کسی شمارے میں مسئلہ ہذا پر ہم تفصیلی گفتگو کر چکے ہیں۔ ا سکی طرف مراجعت مفیدہے۔ واضح ہو کہ ہمارے شیوخ محدث روپڑی اور محدث گوندلوی نماز کے بعد اجتماعی دعا کے عملاً قائل و فاعل نہ تھے، الا یہ کہ کسی کی طرف سے دعا کی درخواست ہو ۔ چنانچہ مقتدیوں میں سے کسی کے تقاضے پر یا امام کی کسی ضرورت اور مطالبے پر اجتماعی دعاکرنا جائز ہے۔ جبکہ اسے نمازوں میں معمول بناء لینا خلاف سنت رسول ہے۔ حدیث ((انَّمَا الاَعمَالُ...))صحیح ہے، لیکن ا س میں دعا کا کہاں تذکرہ ہے؟ اس روایت کو یہاں پیش کرنا بغیر محل ہے۔ عیدین کی تکبیروں والی روایت شواہد کی بناء پر صحیح ہے۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو! إرواء الغلیل (۳؍۱۰۷؍ ۶۳۹) اور سواطع القمرین فی تخریج احکام العیدین (۱۴۵۔۱۵۲) اہلِ علم میں سے کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں کہ ضعیف حدیث عدمِ تعارض کی بناء پر حسن اور صحیح حدیث کا درجہ رکھتی ہے۔ امام مسلم مقدمہ صحیح مسلم میں فرماتے ہیں : ’’جو شخص ضعیف حدیث کا ضعف جاننے کے باوجود بیان نہیں کرتا ، وہ اپنے اس فعل کی وجہ سے گنہگار ہے اور عوام الناس کو دھوکہ دیتا ہے۔ کیونکہ ممکن ہے، کہ اس کی بیان کردہ احادیث کو سننے والا ان سب پر یا ان میں سے بعض پر عمل کرے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ سب احادیث یا ان میں سے اکثر احادیث اکاذیب ہوں اور ان کی کوئی اصل نہ ہو۔ جب کہ صحیح احادیث اس قدر ہیں، کہ ان کے ہوتے ہوئے ضعیف احادیث کی
Flag Counter