Maktaba Wahhabi

586 - 829
إِن شِئتَ أَن تَقعُدَ ۔ فَاقعُد۔ رَوَاہُ أَحمَدُ، وَ أَبُودَاؤدُ، وَالدَّارَقُطَنِیّ۔ وَ قَالَ: الصَّحِیحُ أَنَّ قَولَہٗ:((إِذَا قَضَیتَ ھٰذَا، فَقَد قَضَیتَ صَلَاتَکَ، مِن کَلَامِ ابنِ مَسعُودٍ (رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ )۔ وَ فَصَّلَہٗ شَبَابَۃُ، عَن زُھَیرٍ۔ وَ جَعَلَہُ مِن کَلَامِ ابنِ مَسعُودٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَ قَولُہٗ أَشبَہُ بِالصَّوَابِ مِمَّن أَدرَجَہُ. فَقَد اتَّفَقَ مَن رَوٰی تَشھُّدَ ابنِ مَسعُودٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَلٰی حَذفِہٖ)) [1] یعنی جب تو یہ کہہ دے اور اسے پورا کرے، تو تُو نے نماز مکمل کر لی۔ اگر اٹھنا چاہتا ہے، تو اُٹھ کھڑا ہو اور اگر بیٹھنا چاہتا ہے، تو بیٹھا رہے۔ احمد ، أبوداؤد اور دارقطنی نے اسے روایت کیا ہے۔’’دارقطنی ‘‘نے کہا، کہ صحیح بات یہ ہے، کہ ’’اذَا قَضَیتَ ھٰذَا، فَقَد قَضَیتَ صَلَاتَکَ‘‘ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا کلام ہے اور شبابہ نے زہیر سے جداگانہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے کلام سے بیان کیا ہے اور صاحب ’’المنتقٰی‘‘ فرماتے ہیں کہ زیادہ درست بات یہی ہے بہ نسبت ان لوگوں کے جنھوں نے اسے ’’مدرج‘‘ قرار دیا ہے اور جن لوگوں نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے تشہد کو ذکر کیا ہے، سب اس کے حذف پر متفق ہیں۔ بلکہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے أبو الأحوص کے طریق سے عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ جو کچھ بیان کیا ہے اس زیادتی کے مخالف ہے۔ فرمایا: ((مِفتَاحُ الصَّلٰوۃِ التَّکبِیرُ ، وَانقِضَائُ ھَا التَّسلِیمُ۔ إِذَا سَلَّمَ الاِمَامُ فَقُم، إِن شِئتَ)) ’’نماز کا آغاز تکبیر سے ہے اور اختتام تسلیم سے۔ جب امام سلام پھیرے اگر تو چاہتا ہے ،تو کھڑا ہوجا۔ ‘‘ امام بیہقی رحمہ اللہ نے ’’المعرفۃ‘‘ میں کہا ہے ۔ حُفَّاظ اس طرف گئے ہیں، کہ یہ زہیر بن معاویہ کا وَہم ہے۔ اور امام نووی رحمہ اللہ نے ’’الخلاصۃ‘‘ میں فرمایا:’’ اُتُفِقَ عَلٰی أَنَّھَا مُدرَجَۃ‘‘یعنی سب حفاظ اس بات پر متفق ہیں، کہ یہ جملہ ’’مُدرَج‘‘ ہے۔ یعنی کسی راوی نے اپنی طرف سے اس کو حدیث میں داخل کردیا ہے۔اس کی مؤید ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی ایک روایت مرفوعاً مروی ہے۔ ((اِذَا أَحدَثَ الرَّجُلُ۔ وَ قَد جَلَسَ فِی آخِرِ صَلَاتِہٖ قَبلَ أَن یُّسَلِّمَ، فَقَد جَازَت صَلَاتُہٗ)) (رواہ ابوداؤد) [2] ’’یعنی آدمی جب نماز کے اخیرمیں سلام پھیرنے سے پہلے بے وضو ہو جائے ،تو اس کی نماز
Flag Counter