Maktaba Wahhabi

552 - 829
کے منافی نہیں، کیونکہ یہاں عدمِ رؤیت اور اثباتِ رؤیت کا مقابلہ نہیں، بلکہ رؤیتِ عدم اور رؤیتِ اثبات کا مقابلہ ہے۔ یعنی جن روایتوں میں ذکر ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں رفع یدین نہیں کرتے تھے۔ ان میں سے کئی روایتوں میں رؤیت کی تصریح ہے ۔ ملاحظہ ہو! مسلم: باب مذکورہ اور بخاری باب إلی أین یرفع یَدَیہِ فتأمل فیہ! [1] اور سندھی کا اس طرح سے تطبیق کرنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کی رفع یدین کبھی کرتے، کبھی نہ کرتے۔ یہ اس وقت مناسب ہے، جب سجدہ کی رفع یدین مستقل طور پر ثابت ہو جائے، مگر جب ثبوت ہی مشکوک ہے تو اس کی ضرورت ہی کیا ؟ اس کے علاوہ ہم کہتے ہیں کہ عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما وغیرہ کی حدیث میں رکوع میں رفع یدین کا اثبات ہے، اور سجدہ میں نفی ہے۔ اگر اس کا یہ مطلب لیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں کبھی چھوڑ دیتے تھے اور راوی نے جیسا دیکھا اسے بیان کردیا۔ تو اس پر سوال ہو گا، کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ میں کیوں چھوڑا؟ کیا جواز بتلانے کی غرض سے چھوڑا ،یا بھول کر چھوڑا یا منسوخ ہونے کی وجہ سے چھوڑا؟ بلاوجہ بھول کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غیر مناسب ہے۔ نیز بھول میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء نہیں ہوتی ۔ تو گویا مطلب یہ ہوا کہ سجدہ میں ہمیشہ ’’رفع الیدین‘‘ کرنا چاہیے۔حالانکہ سندھی کی یہ مراد نہیں۔ اس طرح نسخ کی صورت کو سمجھ لینا چاہیے کیونکہ نسخ کی صورت میں لازم آئے گا کہ سجدہ میں بالکل نہ کرنا چاہیے۔ حالانکہ سندھی کی یہ بھی مراد نہیں۔ اب رہی پہلی صورت یعنی جواز بتلانے کی غرض سے چھوڑا ۔ سو اس کی بابت عرض ہے کہ سجدہ میں جواز بتلانے کی غرض سے چھوڑا ہے تو رکوع میں نہ چھوڑنے کا مطلب عدمِ جواز ہو گا۔ یعنی رکوع میں چھوڑنا جائز نہیں ہو گا۔ حالانکہ سندھی کی یہ مراد بھی بعید ہے۔ کیونکہ نسائی کتاب ’’الافتتاح‘‘ کی پہلی حدیث پر سندھی نے رکوع میں بھی ترکِ جواز تسلیم کیا ہے۔ پھر یہاں پر ایک اور دوہرا اعتراض پڑتا ہے۔ وہ یہ کہ اثبات اور نفی دونوں قسم کی احادیث میں استمرار کا
Flag Counter