Maktaba Wahhabi

496 - 829
میں کوئی قرینہ نہیں ہے۔ ساتھ اس کے یہ حدیث ضعیف بھی ہے۔ ’’صاحب العون‘‘ فرماتے ہیں۔ سید نذیر حسین رکوع کی رکعت نہ ہونے کے قائل ہیں۔(۱؍۲۳۴) تیسری دلیل کو ’’دارقطنی‘‘ نے بایں الفاظ نقل کیا ہے: ((مَن اَدرَکَ الرُّکُوعَ مِنَ الرَّکعَۃِ الاٰخرَۃِ یَومَ الجُمُعَۃِ، فَلیُضِف اِلَیھَا الأخرٰی)) [1] یعنی ’’جس شخص نے جمعہ کی نماز کی پچھلی رکعت کا رکوع پا لیا اس کو چاہیے ،کہ دوسری رکعت ملالے۔‘‘ لیکن اس کی سند میں یاسین بن معاذ راوی ’’متروک‘‘ اور ناقابلِ حجت ہے۔ جمہور کی چوتھی دلیل بحوالہ ابن خزیمہ یوں ہے: ((مَن أَدرَکَ الرَّکعَۃَ مِنَ الصَّلٰوۃِ، فَقَد اَدرَکَھَا قَبلَ اَن یُّقِیمَ الاِمَامُ صُلبَہ)) [2] یعنی ’’جس نے رکوع پالیا امام کے سَر اٹھانے سے پہلے، اس نے اس رکعت کو پالیا۔‘‘ اس کا جواب یہ ہے، کہ اس کی سند میں یحییٰ بن حمید راوی مجہول الحال ہے۔ یہ حدیث ناقابلِ اعتماد ہے۔ جس طرح کہ’’جزء القراء ۃ للبخاری میں ہے۔’’دارقطنی ‘‘نے بھی اس کو ضعیف قرار دیا ہے اور عقیلی نے اس کو ’’الضعفاء‘‘ میں ذکر کیا ہے اور یہ ’’قبل ان یقیم الامام صُلبَہ‘‘ کے الفاظ بیان کرنے میں متفرد ہے۔ عقیلی نے کہا ہے، کہ اس حدیث کو مالک اور دیگر حفاظ اصحاب زہری رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے۔ لیکن انھوں نے آخری زیادتی کو بیان نہیں کیا۔ ممکن ہے یہ زُہری کا کلام ہو۔ اسی طرح اس حدیث میں قرۃ بن عبد الرحمن بھی متکلم فیہ ہے اور ’’التعلیق المغنی‘‘ میں ہے: ((فیہ یحییٰ بن حمید، قال البخاری: لا یتابع فی حدیثہ)) بلاشبہ بعض صحابہ رکوع کی رکعت کے قائل ہیں ۔ عام طور پر وہ لوگ ہیں جو سورۃ فاتحہ کی فرضیت کے قائل نہیں۔ اس فہرست میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو شامل کرنا سخت غلطی ہے۔ ان سے بسندِ صحیح ثابت ہے، کہ وہ رکوع کی رکعت کے قائل نہیں۔ (عون المعبود(۱؍۳۳۳) میں ہے: ((وَ قَالَ عَلِیُّ بنُ عَبدِ اللّٰہِ! اِنَّمَا اَجَازَ اِدرَاکَ الرُّکُوعِ مِن اَصحَابِ النَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اَلَّذِینَ لَم یَرَوا القِرَائَ ۃَ خَلفَ الاِمَامِ۔ مِنھُم ابنُ مَسعُودٍ، وَ زِیدُ بنُ ثَابِتٍ، وَ ابنُ عُمَرَ))
Flag Counter