Maktaba Wahhabi

452 - 829
بِدَلِیلٍ شَرعِیٍ وَ رُوِیَ فِی فَضلِہٖ حَدِیثٌ لَا یُعلَمُ أَنَّہٗ کَذِبٌ ۔ جَازَ اَن یَکُونَ الثَّوَابُ حَقًا ۔ وَ لَم یَقُل أَحَدٌ مِنَ الأَئِمَّۃِ أَنّہُ یَجُوزُ أَن یَجعَلَ الشئَی وَاجِبًا، أَو مُستَحِبًّا بِحَدِیثٍ ضَعِیفٍ۔ وَ مَن قَالَ ھٰذَا، فقد خَالَفَ الاِجمَاعَ ۔ وَھٰذَا کَمَا أَنَّہٗ لَا یَجُوزُ أن یُحَرَّمَ شَیئٌ اِلَّا بِدِلِیلٍ شَرعِیٍ لٰکِن اِذَا عُلِمَ تَحرِیمُہٗ، وَ رُوِیَ حَدِیثٌ فِی وَعِیدِ الفَاعِلِ لَہٗ۔ وَ لَم یُعلَم انہ کذب جاز ان یرویہ فیجوز ان یروی فی الترغیب و التَّرہِیبِ، مَا لم یُعلَم اَنَّہٗ کَذِبٌ اِلٰی اٰخِرِ مَا قَالَ)) [1] دوسری بات زیرِبحث مسئلہ کے متعلق ہے۔ سو اوّلاً ہمارے ہاں اس رواج کا، کہ مقتدی بلند آواز سے یہ ’’جوابات‘‘ دیتے ہیں، کوئی جواز معلوم نہیں ہوتا۔ ثانیاًمولانا عبدالرحمن مبارکپوری نے ’’تحفۃ الاحوذی‘‘(ص: ۲۱۵، ج:۴) میں زیرِ حدیث متعلقہ جواب آیت ’’سورہ والتین‘‘ فرمایا ہے: (( وَالحدیث یَدُلُّ عَلٰی اَن مَن یَّقرَأُ ھٰذِہِ الاٰیَاتِ یُستَحَبُّ لَہٗ، اَن یَّقُولَ تِلکَ الکَلِمَات سَوَائً کَانَ فِی الصَّلٰوۃِ اَو خَارِجِھَا۔ وَ اَمَّا قَولُھَا لِلمُقتَدِی خَلفَ الاِمَامِ فَلَم اَذِنٌَ عَلٰی حَدِیثٍ یَدُلُّ عَلَیہِ ۔)) اِنتَھٰی یعنی اس حدیث سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ قاری کا﴿اَلَیسَ اللّٰہُ بِاَحکَمِ الحَاکِمِینَ﴾ (التین:۸)کے بعد ((بَلٰی وَ اَنَا عَلٰی ذَالِکَ مِنَ الشّٰھِدِینَ))کہنا مستحب ہے۔ وہ قاری نماز کے اندر ہو یا نہ ہو۔ لیکن امام کے پیچھے مقتدی کا کہنا جہاں تک مجھے علم ہے ، کسی حدیث میں نہیں آیا ہے۔ مولانا عبید اللہ صاحب مبارکپوری مدظلہ کا بھی فیصلہ یہی ہے: ((وَالحَدِیثُ یَدُلُّ عَلٰی اَن مَن یَّقرَئُ ھٰذِہِ الاٰیَاتِ یُستَحُبُّ لَہٗ ، اَن یَّقُولَ تِلکَ الکَلِمَاتِ سَوَائً کَانَ فِی الصَّلٰوۃِ اَو خَارِجِھَا۔ وَ اَمَّا قَولُھا لِلسَّامِعِ المُقتَدِی، اَو غَیر المُقتَدِی فَلَم اَقِف عَلٰی حَدِیثٍ مَرفُوعٍ صَرِیحٍ یَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ)) الخ [2] رہی وہ بات جو مرعاۃ میں متاخرین شافعی فقہاء سے نقل کی گئی ہے تو اس کی حیثیت نکتہ آفرینی سے زیادہ نہیں معلوم ہوتی۔ھذا ما عندنا واللہ اعلم ( ہفت روزہ الاعتصام،ص:۲۷؍ دسمبر ۱۹۷۰ء)
Flag Counter