Maktaba Wahhabi

441 - 829
اس روایت میں لفظ ’’فَلیَقُل‘‘ استعمال ہوا ہے اور ’’احکام القرآن لابن العربی‘‘ میں ہے: ’’وَ فِی رِوَایَۃٍ غَیرَہٗ اِذَا قَرئَ اَو سَمِعَ‘‘ جو مقتدی کو بھی شامل ہے لیکن ساتھ ہی فرماتے ہیں:’’وَ ھٰذَا اَخبَارٌ ضَعِیفَۃٌ‘‘ ملاحظہ ہو!۱۹۴۱ جزء:۴۔ بہرصورت یہ حدیث ضعیف ہے، کما عرفت۔ باقی رہا معاملہ ’’سورۃ غاشیہ‘‘ کا، تو اس بارے میں مجھے کوئی نص نہیں معلوم ۔ ہو سکتا ہے کہ آپ نے اس سورت کے اختتام پر اَللّٰھُمَّ حَاسِبنِی پڑھا ہو۔ البتہ ’’مشکوٰۃ‘‘ (جزء ثانی، ص:۴۱۷)پر ایک روایت بحوالہ ’’مسند احمد‘‘ بایں الفاظ موجود ہے: (( یَقُولُ فِی بَعضِ صَلٰوتِہٖ: اَللّٰھُمَّ حَاسِبنِی حِسَابًا یَّسِیرًا )) [1] ’’تفسیر ابن کثیر‘‘ جز:۴، ص:۴۸۹، پر ہے ’’صحِیحٌ عَلٰی شَرطِ مُسلِمٍ‘‘ یعنی یہ حدیث امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے، لیکن اس میں ’’سورۂ غاشیہ‘‘ کا تعین کرنا امر مشکل ہے۔ حاصل خلاصہ یہ ہے، کہ ’’سورۃ الاعلیٰ‘‘ میں قاری کے لیے جواب کی رخصت ہے ۔ اس بیان میں وارد باقی احادیث قریباً ضعیف اور ناقابلِ حجت ہیں، باقی رہا معاملہ سامع مقتدی یا غیر مقتدی کے جواب کا، تو یہ کسی مرفوع حدیث سے ثابت نہیں ہو سکا۔ نیز قاری کے لیے مزید گنجائش بھی ثابت ہے۔ چنانچہ صحیح مسلم ،مسنداحمد اور سنن نسائی میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے: ((اِذَا مَرَّ بِآیَۃ فِیھَا تَسبِیحٌ۔ سَبَّحَ ۔ وَ اِذَا مَرَّ بِسَوَالٍ ،سَاَلَ۔ وَ اِذَا مَرَّ بِتَعَوُّذٍ ،تَعَوَّذَ)) [2] یعنی ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مرور(دورانِ تلاوت گزر) تسبیح کی آیت سے ہوتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تسبیح پڑھتے اور جب سوال سے ہوتا سوال کرتے اور جب تعوذ سے گزر ہوتا، تو تعوذ پڑھتے۔‘‘ نیز ’’تلخیص الحبیر‘‘ طبع انصاری کے ،ص:۹۰ میں ہے: (( وَ یَستحبُّ للقاری فی الصلوٰۃ و خَارجھا أن یَسأَلَ الرَّحمَۃَ۔ اِذَا مَرَّ بِآیَۃٍ الرَّحمَۃِ۔ وَ اَن یَتَعَوَّذَ۔ اِذَا مَرَّ بِآیَۃِ العَذَابِ)) ’’سنن ابی داؤد‘‘ بمع ’’عون المعبود‘‘ جزء اول،ص:۳۴۱،پر امام ابوداؤد نے امام احمد سے نقل کیا ہے:
Flag Counter