Maktaba Wahhabi

435 - 829
ابوداؤد شریف میں یہ روایت ایک آدھ لفظ کے ہیر پھیر سے دو سندوں سے مروی ہے۔ مسلم میں تین سندوں سے اور جزء القراء ۃ للبخاری میں کم از کم ۹ یا ۱۰ سندوں سے مروی ہے۔ لہٰذا اس کی صحت میں شک نہیں ہونا چاہیے۔ مزید توجہ طلب باتیں: ۱۔ صحابی رضی اللہ عنہ نے پوری سورۃ الاعلیٰ بلند آواز سے پڑھی تھی یا صرف پہلی ایک آیت؟ ۲۔ سورۃ الاعلیٰ بلند پڑھنے والے صحابی نے سورۃ فاتحہ کیسے پڑھی ہوگی؟ ۳۔ جو صحابی’’ سورۃ الاعلیٰ‘‘ ضروری پڑھ رہا ہے ، وہ سورۃ فاتحہ چھوڑ سکتا ہے؟ ۴۔ پوری جماعت ِ صحابہ میں سے ایک نے پڑھا تھا، باقیوں نے کیا کیا تھا؟ ۵۔ صحابی نے جہراً پڑھنے کو ((لَمْ اُرِد بِھَا اِلَّا الْخَیْرَ)) سے تعبیر کیا تھا یا قرآن کی قراء ۃ کو؟ ۶۔ عالم استغراق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اَحْیَاناً ایک آدھ آیت اونچی پڑھ لیا کرتے تھے۔ صحابہ کو ایسا کرنے پر کیوں ٹوکا؟ ۷۔ ((خَالَجَنِیْھَا)) نفی کے لیے فرمایا یا اثبات کے لیے؟ (انکار کے لیے یا اقرار کے لیے؟) (سائل محمد اقبال…قصور) جواب: کتب احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا جو طریقہ صریحاً منقول ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر و عصر کے فرضوں کی پہلی دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ کے علاوہ بھی قراء ۃ فرماتے تھے۔ بلکہ صحیح مسلم میں ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت سے مفہوم ہے کہ گاہے بگاہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کے فرضوں کی پچھلی دو رکعتوں میں بھی قراء ت فرماتے لیتے تھے۔صحیح بخاری میں ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ((کَانَ النَّبِیُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یَقْرَأُ فِی الرَّکْعَتَیْنِ مِنَ الظُّھْرِ وَالْعَصْرِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ وَ سُوْرَۃٍ وَّ یُسْمِعُنَا الاٰیَۃَ اَحْیَانًا‘ (جلد اوّل،ص:۱۰۵، باب القرآء ۃ فی العصر) [1] کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر کی ہر دو رکعتوں میں سورۃ الفاتحہ اور (اس کے ساتھ) سورۃ ( ملا کر) پڑھتے تھے اور کبھی کبھی ہمیں بھی کوئی آیت سناتے تھے۔‘‘ شبہ: اگر کوئی کہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراء ت تو بحیثیت امام کے تھی اور اس میں کسی کو کلام نہیں… اس وقت متنازع فیہ مسئلہ مقتدی کا ہے نہ کہ امام کا؟
Flag Counter