Maktaba Wahhabi

424 - 829
((اِذَا قَالَ الاِمَامُ:﴿غَیرَِ المَغضُوبِ عَلَیھِمْ وَ لَا الضَّالِّینَ ﴾ فَقُولُوا: آمِین، فَإِنَّ المَلَائِکَۃَ تَقُولُ: آمِینَ۔ وَ إِنَّ الاِمَامَ یَقُولُ: آمِین۔ فَمَن وَافَقَ تَامِینُہٗ تَامِینَ المَلَائِکَۃِ، غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِہٖ))(النسائی، ابوداؤد، والسراج) [1] یعنی ’’جب امام ﴿غَیرَِ المَغضُوبِ عَلَیھِمْ وَلَا الضَّالِّینَ ﴾ کہے، تو تم آمین کہو۔ کیونکہ فرشتے آمین کہتے ہیں، اور اس لئے بھی کہ امام بھی آمین کہتا ہے۔ پس جس کی (آمین) فرشتوں کی (آمین) سے موافق ہوتی ہے، اس کے سابقہ گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (( وَھُوَ دَالٌّ عَلٰی أَنَّ المُرَادَ، المُوَافَقۃُ فِی القَولِ، وَالزَّمَانِ)) یعنی یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے، کہ موافقت سے مراد قولی اور زبانی موافقت ہے۔ اور امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : (( مَعنَٰی قَولِہٖ إِذَا قَالَ الاِمَامُ﴿ وَلَا الضَّالِینَ﴾، فَقُولُوا : آمِین !۔ أَی مَعَ الاِمَامِ، حَتّٰی یَقَعُ تَامِینُکُم، وَ تَامِینُہٗ مَعًا )) [2] ’’فَقُولُوا آمِینَ‘‘ کا مفہوم یہ ہے کہ امام کے ساتھ آمین کہو، حتی کہ تمہاری اور امام کی آمین اکٹھی واقع ہو۔‘‘ یہ بھی یاد رہے کہ اکٹھی ’’امین‘‘ کہنے کا مفہوم یہ ہر گز نہیں ہے، کہ امام اگر سنّت کو سہواً یا عمداً ترک کر دے، تو مقتدی بھی آمین نہ کہے۔ بلکہ مقتدی کو سنّت پر عمل کرتے ہوئے، پھر بھی آمین کہنی چاہیے۔ صحیح حدیث میں وارد ہے: (( صَلُّوا کَمَا رَأَیتُمُونِی اُصَلِّی)) [3] یعنی جیسے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ ٹھیک اسی طرح نماز پڑھو۔ تو گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ تم ہر دو صورت آمین بلند آواز سے کہو۔نیز امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
Flag Counter