Maktaba Wahhabi

401 - 829
سے لے کر آخری پسلی تک ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں متعلقہ لغت کا حوالہ مع عبارت دے دیں۔ ۲۔ نماز پڑھتے وقت کندھے سے کندھا گھٹنے سے گھٹنا اور ٹخنے سے ٹخنا ملانے کا حکم ہے۔ لیکن عام طور پر پاؤں بالکل سیدھے نہیں ہوتے بلکہ انگلیاں (پاؤں کا سامنے والا حصہ) باہر دائیں طرف نکلی ہوتی ہے اور ایڑھی اندر کی طرف مڑی ہوتی ہے سڑک پر اَن گنت لوگ دیکھ کر پتہ چل جاتا ہے کہ خدا نے اکثریت کی ساخت ایسی بنائی ہے اب مکمل تمام پاؤں نماز میں صرف اسی صورت میں ملایا جا سکتا ہے کہ پاؤں کو کھینچ کر، زور لگا کر سیدھا کیا جائے، جب کہ اس صورت میں ٹانگوں میں کھچاؤ اور درد ہو سکتا ہے پھر ہر آدمی کے پاؤں کا سائز دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اس لیے ٹخنہ کیسے مل سکتا ہے ؟ یہی الجھن کندھا ملانے کے معاملے میں ہے ہر آدمی کا قد دوسرے سے مختلف ہوتا ہے پانچ فٹ قد والا چھ فٹ قد والے سے کندھے کیسے ملائے؟ کھینچ تان کر بھی کندھے ملانا مشکل ہے کیا چھوٹے قد والابڑے قد والے سے پنجوں کے بل کھڑا ہو کر کندھا ملائے؟ اور پھر گھٹنے سے گھٹنا اورٹخنے سے ٹخنا کیسے ملائے؟ جب سارا زور جسم اور توجہ ذہن ان کاموں کی طرف ہو جائے توقرآن اور نماز کے الفاظ پر غورو فکر کرنے کا موقعہ کہاں ملے گا؟ جواب:(۱)بحالتِ نماز ہاتھ سینے پر باندھنے چاہئیں۔ چنانچہ ’’صحیح ابن خزیمہ‘‘ میں حدیث ہے۔ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر سینے پر ہاتھ باندھے اور ’’مسند احمد‘‘ میں ھلب صحابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو سینے پر ہاتھ رکھے ہوئے دیکھا۔ نیز ’’مراسیل ابوداؤد‘‘ میں ہے۔ حضرت طاؤس فرماتے ہیں: کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا دایاں ہاتھ نماز میں اپنے بائیں ہاتھ پر رکھ کر اپنے سینے پر باندھا کرتے تھے۔ اگرچہ یہ حدیث مرسل ہے، لیکن دوسری مستند احادیث سے مل کر قوی ہو گئی ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (( وَضعُھُمَا عَلَی الصَّدرِ، ھُوَ الَّذِی ثَبَتَ فِی السُّنَّۃِ ۔ وَ خِلَافُہُ اِمَّا ضَعِیفٌ، اَو لَا اَصلٌ لَہٗ )) [1] ’’دونوں ہاتھوں کو سینے پر رکھنا، یہی سنت سے ثابت ہے اور اس کے برخلاف یا تو ضعیف ہے یا بے بنیاد۔‘‘
Flag Counter